ہفتہ , 20 اپریل 2024

یوکرین میں رشین ٹیکٹیکل نیوکلیئر وارہیڈز

(لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان)

دنیا کی کوئی قوم اور کوئی نسل ابد تک دوشِ روزگار پر سوار نہیں رہ سکتی۔ ہر قوم کا ایک دور ہوتا ہے۔ اہرامِ مصر تعمیر کرنے والی اور حنوط شدہ لاشوں کی خالق قوم کا آج کوئی نشان تک باقی نہیں۔ ان کے گھڑے اور بنائے ہوئے پتھر تو باقی ہیں لیکن وہ کہاں تھیں، کون تھیں، کس دور میں تھیں، کس پر حکمران تھیں اور محکموم کون تھے، ان باتوں کا سراغ آج تک نہیں لگایا جا سکا۔ بس قیاس کے گھوڑے ہیں جو دوڑائے جاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی تب تک دوڑائے جاتے رہیں گے جب تک ہماری یہ دنیا باقی ہے۔

لیکن اس دنیا کے دن بھی گنے جا چکے ہیں۔جس طرح آسمانی صحیفوں میں حضرت نوح سے لے کر حضرت عیسیٰ تک کے قصے بیان کئے گئے ہیں اُسی طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ و الٰہ وسلم سے لے کر دوسری نئی دنیا کے حضرت محمدصلی اللہ علیہ و الٰہ وسلم تک پیدا ہونے اور مرنے والی امتوں کے قصے جس صحیفے میں بیان ہوں گے وہ نجانے کس ہستی پر اترے گا۔ اہرامِ مصر تو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں لیکن کیا جوہری جنگ جو زیادہ دور نہیں اس میں اہرام کے مماثل دورِ موجود کی کوئی نشانی بھی بچ پائے گی، اس سوال کا جواب نفی میں ہے…… جوہری جنگ کے بعد کا انسان کیسا ہوگا، اس کے خد و خال کیسے ہوں گے اور اس کو ”ترقی یافتہ“ ہونے میں کتنے برس یا کتنی صدیاں لگیں گی اس موضوع پر لکھنے والوں کی نسل کا آغاز ہنوز نہیں ہوا۔ شاید خالقِ کائنات نے اسی لئے قیامت کو فی الحال ٹال رکھا ہے۔

جوہری ہتھیاروں کا آغاز تو اگست 1945ء میں ہو گیا تھا۔اس کے بعد صرف تجربات ہوتے رہے۔ انسان اندازے لگاتا رہا کہ مہلک سے مہلک تروپین کس طرح کا ہوگا اور اس کی شرحِ ہلاکت کیا ہوگی۔

ان جوہری تجربات سے جو بات واضح ہوئی وہ یہ سوال تھا کہ جوہری وارہیڈز کی ہلاکت خیزی کا بار کون اٹھائے گا، اگر اسی انسان نے اٹھانا ہے تو اس کو مارنے کا کیا فائدہ ہے؟ جاپان کے بعد یوکرین کا نام لیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے تو چھپ چھپا کر روس کے شمالی، مغربی اور جنوبی حصوں کو نشانہ بنانے کا پلان بنا رکھا ہے لیکن روس جو مشرق میں ہے اور اس کے ساتھ چین اور شمالی کوریا جو مزید مشرق میں ہیں، ان کے جوابی پلانوں کی خبر کسی کو بھی نہیں۔ یوکرین کے شمال میں بیلاروس واقع ہے جو روس کا اتحادی ہے، وہاں روسی صدر پوٹن نے حال ہی میں ٹیکٹیکل نیوکلیئر وارہیڈز رکھنے کا پلان اپنے حریفوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب اس کا جواب ان ملکوں کی طرف سے آئے گا جو ناٹو میں شامل ہیں اور بیلا روس اور یوکرین کے مغرب میں ایک ہلال کی صورت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض میں تو پہلے ہی چھوٹے درجے کے جوہری ہتھیار امریکی مہربانیوں سے رکھ دیئے گئے ہیں۔ لیکن اگر ان بیٹل فیلڈ وار ہیڈز کی فائرنگ کا کھیل ایک بار شروع ہو گیا تو معاملہ بین البراعظمی میزائلوں اور ہائیڈروجن بموں تک چلا جائے گا۔ جاپان کے دو چھوٹے شہروں کے علاوہ دنیا کے سارے براعظموں میں موجود 7،8ارب انسانی آبادی یہ سب تماشا دیکھ رہی ہے اور ’بے فکر‘ ہو کر آگے بڑھ رہی ہے!…… لیکن اس بے فکری کا انجام وہی ہوگا جس کا ذکر اس کالم کی اولین سطور میں کیا گیا ہے۔

اہرام مصر اور فرعونوں کے دور کے بعد جو دوسرے ادوار آئے ان میں قیصر و کسریٰ، مسلمانوں اور یورپی اور امریکی اقوام کے دور تھے۔ امریکی دور اب تک چل رہا ہے، اس قوم کی عسکری اور غیر عسکری قوت کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کا مقابلہ کرنے والی دوسری اقوام میں ابھی وہ دم خم نہیں کہ اس کو نیچا دکھا سکیں۔ روس اور چین مل کر بھی امریکہ کو غیر جوہری جنگ کے مقابلے میں شکست نہیں دے سکتے…… شاید یہی وجہ ہو کہ روس نے بیٹل فیلڈ نیوکلیئر وار ہیڈز کو یوکرین کے خلاف بیلاروس میں ڈیپلائے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جوہری جنگ میں غیر جوہری جنگ کا سا توازنِ قوت درکار نہیں ہوتا۔ روس نے اگر ”آگے بڑھنے“ کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو وہ اپنے ٹیکٹیکل جوہری وارہیڈز کو ضرور آزمائے گا۔ امریکہ اس کا کیا جواب دے گااس کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ اگر امریکہ نے خود کو باقی رکھنا ہے تو اسے ”جوہری پھیلاؤ“ کی پالیسی سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

یورپین اور امریکن اگرچہ ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں لیکن سکّے کے دو رخوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ امریکہ کو دنیا کی واحد سپرپاور بنے ابھی صرف 33 برس (1990ء تا 2023ء) ہوئے ہیں لیکن برطانیہ تو صدہا سال تک دنیا کی واحد سپرپاور بنا رہا۔ کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کا تجربہ مسلمانوں کے سپرپاور بنے رہنے کے دورانیے سے کم نہیں۔ اقبال نے ہارے ہوئے، مقہور، مظلوم اور شکستہ دل مسلمانوں کو جب یہ کہا تھا کہ ان سے ایک بار پھر دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا تو جس سبق کو پڑھنے کی تلقین کی تھی وہ صداقت، شجاعت اور عدالت کا سبق تھا۔ امریکی اور برطانوی نسلی اعتبار سے اگرچہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا نے مسلمان دور کی طرح برطانوی دور کا ایک عادلانہ رخ بھی دیکھا ہے۔

1857ء میں ہندوستان میں پہلی جنگ آزادی لڑی گئی۔ 1600ء سے لے کر 1857ء تک برطانویوں نے 250سال تک ظلم و جور،فریب کاری اور دھوکہ بازی کی مثالیں قائم کر دیں۔ اس دور کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو میرے اس ایک فقرے کے ایک سو ایک ثبوت مل جائیں گے۔ لیکن جب 1857ء میں برطانیہ نے ہندوستانی باشندوں کو شکست دے دی تو اس کے بعد 1858ء سے لے کر 1947ء تک کے 90برسوں میں اس کا اندازِ حکمرانی بالکل جداگانہ ہو گیا۔

برصغیر ہر لحاظ سے ایک قدیم معاشرہ تھا۔ انگریزوں (برٹش) نے مغل باقیات کو شکست دی تو اب آگے کا کھلا میدان ان کے سامنے تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب ان کو ”مغل انڈیا“ کی بجائے ”برٹش انڈیا“ تعمیر کرنا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ برٹش دور میں کوئی ایسا شعبہ یا محکمہ نہ تھا جس نے جدید دور کی طرف قدم نہ بڑھایا۔حتیٰ کہ مسلح افواج کو بھی جدیدانداز میں منظم اور مسلح کیا گیا۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ 1947ء میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے 75برسوں میں ہم نے جوہری اور میزائیلی شعبوں کے علاوہ دوسرے کن غیر عسکری شعبوں میں کوئی قابلِ ذکر ترقی کی ہے…… ہاں البتہ قابلِ ذکر تنزلی کی بات دوسری ہے…… اس زوال آمادگی، تنزلی اور انحطاط کے ثبوت آج پاکستان میں جا بجا نظر آ رہے ہیں۔ انگریز (برٹش) بجا طور پر سوال کر سکتے ہیں کہ اگست 1947ء میں ہم پاکستان کو جس مقام تک لا کر واپس برطانیہ گئے تھے، اس سے پاکستان کتنا آگے بڑھا ہے؟

برطانویوں کے مقابلے میں اگر امریکیوں کا ریکارڈ دیکھیں تو انہوں نے اب تک واحد سپرپاور ہونے کے اعزاز کو صرف اپنی خودغرضانہ ہوسِ ملک گیری کے لئے استعمال کیا ہے۔ پاکستان گزشتہ 75برسوں میں کئی بار امریکہ کا ساتھ دینے کی راہ پر نکلا لیکن ہر بار اسے مایوسی کا سامنا ہوا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی اور برطانوی اگرچہ نسلی اعتبار سے ایک ہی سٹاک کے حامل ہیں لیکن دونوں کے اندازِ عمل اور اطوارِ عملداری میں کوسوں کا فاصلہ ہے۔ امریکہ دوراندیش نہیں، عیار بلکہ مکار ہے جبکہ برطانیہ قوم پرست ضرور تھا لیکن اس نے اپنے مقبوضات میں ٹیکٹیکل سطح کے عدل و انصاف کی طرح ڈالی۔ سٹرٹیجک سطح پر اگرچہ اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہ آیا لیکن مقبوضہ اقوام میں سٹرٹیجک سطح کے عدل و انصاف کا بوجہ اٹھانے کا دم خم بھی کہاں تھا؟

برطانوی قوم آج بھی اگر امریکیوں کو اپنا ماضی یاد دلا کر ان کو الل ٹپ فیصلوں سے باز رکھنے کی تلقین کرے تو یوکرین میں رشین ٹیکٹیکل نیو کلیئر وارہیڈز کے مسئلے کو مزید آگے بڑھنے سے روک سکتی اور دنیا کو مزید باقی رہنے کی مہلت دے سکتی ہے!بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …