ہفتہ , 3 جون 2023

ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کمیشن اور مقبوضہ کشمیر

(خالد احمد)

ایک جانب عالمی قوتیں گزشتہ ایک سال سے یوکرائن پر روس پر حملے اور اس کے مغربی دنیا کی اقتصادیات پر پڑنے والے منفی اثرات سے بچاﺅ میں مصروف ہیں تو دوسری طرف چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان برسوں سے جاری کشیدگی کے خاتمہ کے بعد ان دونوں اہم اسلامی ممالک کے درمیان امن معاہدہ کو ممکن بنا کر ایشیا میں امریکی چودھراہٹ کے خلاف خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ ادھر، پاکستان داخلی طور پر شدید ترین سیاسی بحران کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں انتہا کو چھوتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مو¿ثر آواز نہیں اٹھاپارہا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں تیزی کے ساتھ غیر کشمیریوں کی مقبوضہ وادی میں آباد کاری کے لیے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے اور اس مقصدکے لیے حیلے بہانے کشمیریوں کے گھروں کو بلڈوزروں کے ذریعے ملیا میٹ کیا جارہاہے۔ بھارت سرکار کی اس حکمت عملی کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں اٹھنے والی ہر آواز کویا تو ہمیشہ کے لیے خاموش کر ادیا جاتا ہے یا پھر احتجاج کرنے والوں کو بھارت میں دور دراز ریاستوں میں بدنام زمانہ جیلوں میں قید کردیا جاتا ہے۔

اس صورتحال کے خلاف برمنگھم میں 17مارچ 2023ءکو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی برطانوی نمائندہ آسٹریج لائچ نے پریس کانفرنس کے دوران بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو اپنے گھروں سے محروم کرنے اور ان کے گھروں کو گرانے کا سلسلہ بند کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جو سلسلہ برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہے یہ اس کی بدترین شکل ہے جس سے آج کشمیری دو چار ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ بھارت سرکار مقبوضہ جموں وکشمیر میں ملکیت کے حوالے سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق تسلیم کرنے سے کس طرح انکار کرسکتی ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ جموں و کشمیر مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست ہے جہاں اب مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں جاری ہیں اور یہی مقبوضہ جموں و کشمیر کا حقیقی المیہ ہے۔آسٹریج لائچ نے مطالبہ کیا کہ بھارت سرکار نہ صرف بلڈوزروں کے ذریعے کشمیریوں کے گھر گرانے کا سلسلہ بند کرے بلکہ اب تک جو گھر گرائے جاچکے ہیں ان کے مالکان کو معاوضہ بھی ادا کرے۔

اسی روز ہی جینوا میں انسانی حقوق کمیشن کے 52ویں اجلاس کے دوران منعقد کیے گئے سیمینار میں بھارت سرکار کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو ان کے گھروں سے نکال کر گھروں کو منہدم کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور کشمیریوں کو کشمیر میں دوسرے درجے کا شہری بنانے کے اس عمل کو بھارت سرکار کے اس منصوبے کا حصہ قرار دیا گیا جس کے تحت بھارت سرکار مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے بھارت سے انتہا پسند ہندوو¿ں کو لاکر مقبوضہ جموں کشمیر میں آباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سیمینار کو Indian Settler coloniaism and great land grab in Indian occupied Kashmir کا عنوان دیا گیا جو مقبوضہ کشمیر میں جاری صورتحال کی سنگینی کو عیاں کرنے کے لیے کافی تھا۔ سیمینار میں کینیڈا سے انسانی حقوق کمیشن کے نمائندہ رابرٹ فنتینا ، امریکا سے انسانی حقوق کے لیے متحرک خاتون رکن میری سکلی نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔ ان کے علاوہ دنیا بھر سے انسانی حقوق کمیشن کے بیشتر معروف نمائندے بھی سیمینار میں گفتگو کے لیے موجود تھے۔ ان میں سے کوئی بھی فرد ایسا نہیں تھا جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت سرکار کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا ہو۔ سب کا موقف بڑا واضح اور دو ٹوک تھا کہ بھارت سرکار اپنی فوج کے ذریعے کشمیریوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ کرنے کا سلسلہ بند کرے ۔سیمینار کے شرکاءحیران تھے کہ بھارت کھلے عام کشمیریوں کو بے گھر کرکے وہاں بھارتی ہندوﺅں کی آبادکاری کو آگے بڑھا رہا ہے لیکن عالمی سطح پر کوئی بھی ملک اس کے خلاف آواز بلند کرنے یا بھارت کو کشمیریوں کے خلاف اس کے مذموم ایجنڈے سے روکنے کو تیار نہیں۔

سیمینار کے دوران نشاندہی کی گئی کہ بھارتی فوج 1989 ءسے مقبوضہ کشمیر میں جنگلات اور کشمیریوں کی مختلف اضلاع میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر ناجائز قابض چلی آرہی ہے جہاں بھارتی فوج پختہ تعمیرات بھی کرچکی ہے۔ ابتداءمیں بھارت سرکار کی طرف سے اس قبضے کو جز وقتی قرار دیا گیا تھا اور مقبوضہ کشمیر کی ریاستی پارلیمنٹ کو باقاعدہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جلد ہی بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے دستے بھارت واپس چلے جائیں گے مگر اس کے برعکس بھارت اپنی فوج کی تعداد میں بتدریج اضافہ کرتا چلا گیا جو 5 اگست 2019 ءکو 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ یہ اضافہ بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق شق 370 اور 35A کے خاتمے اور مقبوضہ ریاست کو بھارت میں ضم کرنے کے فیصلے کے تناظر میں کشمیریوں کی طرف سے احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ مودی حکومت کا خیال تھا کہ کشمیری احتجاج ضرور کریں گے لیکن وہاں موجود بھارتی فوج جلد ہی احتجاج پر قابو پالے گی تاہم کشمیری کسی صورت بھارتی جبر کے سامنے جھکنے اور بھارت آزادی کے لیے اپنی تحریک سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوئے اور اب بھارت ان کی املاک پر اپنی فوجی قوت کے ذریعے قبضہ کرنے میں مصروف ہے جس کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی ونام نہاد پارلیمنٹ میں منظور کیے گئے ایک ایکٹ کے تحت بھارتی فوج کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے کسی بھی گھر، عمارت یا زرعی اراضی کو دفاعی ضرورت کے تحت جبراً اپنے قبضہ میں لے سکتی ہے۔ حیران کن طور پر اس سیاہ قانون کو بھارت یا مقبوضہ کشمیر کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔بشکریہ نوائے وقت

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

آج ہماری، کل تمہاری باری ہے

(سید مجاہد علی) گزشتہ روز تحریک انصاف کے لیڈر بابر اعوان نے ایک ٹویٹ میں …