ہفتہ , 20 اپریل 2024

سستی روٹی سے مفت آٹا تک

(محسن گواریہ)

وزیر اعظم شہباز شریف غریب آدمی کی خدمت کے جذبے پر مبنی سیاست کی بات کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے وہ اپنے ہر دور حکومت میں ہمیشہ ایسی سکیمیں متعارف کراتے ہیں جو نظر آئیں،انکی سیاست میں جود کھتاہے وہ بکتا ہے کی سوچ ہمیشہ نمایاں رہی ہے،انڈر پاسز، بڑے بڑے پل ،بسیں، اور نج لائن پھر سستی روٹی اور اب مفت آٹا،اس طرح کے کاموں میں میاں شہباز شریف کی تصاویر ہر جگہ سجتی ہیں،بینر اور پینا فلیکس لگتے ہیں اور پھر واہ واہ ہوتی ہے، ماضی میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں سستی روٹی سکیم کا آغاز کیا گیا،اس سکیم پر اربوں روپے تنوروں میں جھونک دیے گئے، ہر تنور پر میاں صاحب کی تصویر والا بینر لگتا تھا مگر اس سکیم کے مطلوبہ فوائد زیادہ دیر تک حاصل نہ ہو سکے اور اب انہی کے ویژن کے مطابق مفت آٹا سکیم شروع کی گئی ہے جو چند ہی دنوں میں دسیوں لوگوں کی جانیں لے گئی ہے ،ان سکیموں میں فلور ملز مالکان نے دونوں ہاتھوں سے نوٹ سمیٹے،عوام کی ایک خاص تعداد کو سستی روٹی تو ملی مگر تنور مالکان بھی حصہ بقدر جثہ وصول کرتے رہے سبسڈی پر ملنے والی گندم اور آٹا افغانستان بھی سمگل ہوتا رہا اور آخر کار حکومت کے اربوں روپے تنوروں میں جل کر راکھ ہو گئے،جس کے بعد اس سکیم کو بند کرنا پڑا ، اب مفت آٹا سکیم میں غریب کی عزت کا جنازہ اور انکی جانیں ساتھ ساتھ نکل رہی ہیں۔

غریب کو سستی روٹی اور مفت آٹے کی فراہمی پر کوئی کیسے اعتراض کر سکتا ہے بلکہ موجودہ حالات میں ان کے لئے اس سے بھی بڑھ کر ہونا چاہئے مگر تقسیم کا میکانزم ایسا ہو کہ انکی مدد بھی ہو جائے اور عزت نفس بھی مجروح نہ ہو،نگران حکومت کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے دل گرفتہ تھے،کہنے لگے ہم سستے آٹا سے لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں لینا چاہتے تھے مگر بد دعائیں اور بدنامی ہمارے ہاتھ آ رہی ہے۔

ماضی میں ہر سال پنجاب حکومت رمضان بازار یا سستے بازاروں پر آٹھ دس ارب لگاتی تھی، اسے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہوجاتے تھے اور سفید پوش طبقہ کی مدد بھی ہو جاتی تھی، مجھے یاد پڑتا ہے وہاں لوگوں کے لئے کرسیاں بھی لگائی جاتی تھیں اور بوڑھے افراد کا خاص خیال رکھا جاتا تھا،اسی طرح کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک ماڈل بازار میں جانے کا موقع ملا،جہاں فائن آرٹ کے سٹوڈنٹس کے درمیان کوئی مقابلہ رکھا گیا تھا ، وہ بازار تو کمال تھا،پتہ چلا کہ وہ ماڈل بازار محکمہ انڈسٹری کی زیر نگرانی چلایا جا رہا ہے اور صوبے میں ایسے بیسیوں ماڈل بازار ہیں جہاں روزانہ استعمال کی سستی چیزوں کے سٹال لگائے جاتے ہیں اور شائد انہیں کوئی سبسڈی بھی نہیں دی جاتی اور وہ محکمہ اپنی محنت سے مینیج کرتا ہے۔ اس بار حکومت سستا آٹا سکیم پر 53ارب روپے خرچ کر رہی ہے،اس سے تو آدھی رقم خرچ کر کے طریقے سے تمام نہیں تو اکثر شہریوں کو سستاآٹا فراہم کیا جا سکتا تھا وہ بھی بغیر کسی مشقت کے،اس سے قبل ماضی میں سستے بازاروں،رمضان بازاروں سے بہترین نتائج حاصل ہوتے تھے، اب بھی آٹے کی سبسڈائزڈ قیمت مقرر کر کے پوری مارکیٹ میں وافر سپلائی کی جاتی تو حکومت کے حصے میں رسوائی کی بجائے سرخروئی آتی،آٹا کسی بھی شہری کیلئے زندگی کی ضمانت ہے مگر مفت آٹا سکیم کے تحت غریب عوام کے حصے میں موت آرہی ہے،جگ ہنسائی الگ ہے،ملک شدید ترین معاشی بحران سے دوچار ہے حکومت نے آئین کو روند کر بروقت الیکشن نہیں کرائے کہ فنڈز نہیں ہیں مگر مفت آٹا سکیم پر53ارب روپے لگائے جا رہے ہیں ،یہ بھی یقین نہیں کہ یہ ساری رقم اسی مقصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے یا اس میں سے فلور ملز مالکان اور بدعنوان نگران عملہ بھی حصہ نکال رہا ہے جیسا نارنگ منڈی میں ہوا۔ اس وقت چیف سیکرٹری سے نائب قاصد تک تمام انتظامی مشینری مفت آٹے کی تقسیم میں مگن ہے

اور تازہ ترین ہدایات کے مطابق اعلیٰ افسروں کو مفت آٹا کی نگرانی کے لئے مختلف اضلاع میں مسلسل تین روز تک رہنا پڑے گا،یوں دیگر ریاستی امور ایک بار پھر تعطل کا شکار رہیں گے کیا ہی اچھا اور آسان طریقہ تھا ”بی آئی ایس پی“ کے ڈیٹا کے مطابق مستحقین کے اکاؤنٹ میں مفت آٹے کے پیسے براہ راست منتقل کر دئیے جاتے اور وہ اوپن مارکیٹ سے آسانی کیساتھ آٹا خرید لیتے،اس طرح قیمتی جانیں اور عوام کا قیمتی وقت بچایا جا سکتا تھا،مگر مارکیٹ میں وافر مقدار میں سستا کھلا آٹا فراہم کرنے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رقم منتقل کرنے سے حکمرانوں کی تصاویر کیسے لگائی جاتیں؟پنجاب کا اس مفت آٹا سکیم میں بہت بڑا حصہ ہے مگر اس کے کسی عہدیدار کی تصویر اور بینر آویزاں نہیں ہے، رمضان المبارک کے آغاز میں جب وزیر اعظم نے پنجاب میں مفت آٹا بانٹنا شروع کیا تو کہیں بھی کسی بھی بینر پر ان کی کوئی تصویر نظر نہ آئی تو اس کا نہ صرف سخت نوٹس لیا گیا بلکہ ہنگامی بنیادوں پر وزیر اعظم کی تصاویر والے بینر اور پینا فلیکس لگوائے گئے، نگران وزیر اعلیٰ نے اپنی تصاویر اور اس طرح کی تشہیر سے منع کر دیا ہے۔

ایسے وقت میں جب ملک پر نا دہندگی کے خطرات منڈلا رہے ہیں،عوام مہنگائی کے باعث کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،امن و امان کی بد ترین حالت ہے،چور ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں،مفت آٹے کیلئے لوگ زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی داؤپر لگا رہے ہیں مگر آٹا ان کی دسترس سے باہر ہے،کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک آج اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے،انصاف نا پید ہے،صاحب حیثیت اعلیٰ عدلیہ سے وکیلوں کو بھاری فیس دے کرانصاف لے لیتے ہیں مگر جو غریب بچوں کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے وہ انصاف کیلئے وکیلوں کو فیس کہاں سے دے،حکمران سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے معاملات کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا رہے ہیں،اپنی حکومت کے استحکام،طوالت اور ووٹ بینک میں اضافہ کیلئے قرضوں میں جکڑے،آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ملک کے خزانے کو منصوبہ بندی کے بغیر بے دریغ لٹانے میں مصروف ہیں،نتیجے میں غریب عوام زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔

غریب اپنی دیگر ضرویات کو تج کر آٹا خرید لیتا تھا مگر مفت آٹا کیلئے آج اسے زندگی کو داؤپر لگانا پڑ رہا ہے، ہو سکتا ہے حکومت کا مقصد صرف عوامی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے،مگر اس کیلئے ضروری منصوبہ بندی نہیں کی گئی،اس وقت آٹا سنٹر ہزاروں، تھیلے لاکھوں اور لینے والے کروڑوں اور جب کوئی جنس مفت اور کمیاب ہو گی تو افراتفری لازمی ہو گی،حکومت اس سکیم پر 53ارب روپے خرچ کر رہی ہے،اگر اس رقم سے غریب افراد کو یقینی آٹا فراہم کر دیا جاتا ہے تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں،اب تک پنجاب میں مفت آٹا لینے کی تگ و دو میں درجن سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں،جانے ماہ مقدس میں اور کتنے داعی اجل کو لبیک کہیں گے؟بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …