منگل , 6 جون 2023

یہ وقت بھی گزر جائے گا

(پیر فاروق بہاو الحق شاہ)

وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ گزر جاتا ہے۔ عروج و زوال کی تمام داستانیں اسی جملے کے گرد گھومتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عروج کا یہ عالم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک ہی وقت میں صدر پاکستان بھی تھے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی۔ وہ نہ صرف 90 ہزار قیدی پاکستان واپس لائے بلکہ پاکستان کو متفقہ دستور کا تحفہ بھی دیا۔پھر وقت نے ایسا پلٹا کھایا وہی ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے لیکن وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ جنرل محمد ضیاالحق کے گیارہ سالہ اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔ انکے اقتدار کا سورج غروب ہونیکی دیر تھی کہ ضیاء نرسری میں جنم لینے والے پودے تناور درخت بن گئے اور پھر زمانے نے وہ وقت بھی دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت اور جنرل ضیاالحق کی آغوش میں پرورش پانے والے سیاسی گروہ کے مابین آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا گیا۔

یہاں تک کہ آصف علی زرداری کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کے مقدر کا سورج زوال آشنا ہوا۔ اب بھی وقت گزر رہا ہے۔ اسکی دھول میں صاحبانِ جاہ و حشمت، گمنام ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن بعض لوگ ابھی تک یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وقت انکی مٹھی سے نکل چکا ہے۔ یہ تلخ حقیقت کچھ لوگوں کیلئے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔پاکستان 22کروڑ محنتی اور باشعور لوگوں کا ملک ہے۔ اسکی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔یہ نوجوان نہ صرف مقامی حالات سے باخبر ہیں بلکہ بدلتے ہوئے عالمی حالات سےبھی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ دستور کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو جس طرح ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ،پاکستانی معاشرے کا 60 فیصد باشعور طبقہ اسے بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔تمام سیاسی جماعتوں میں اہل الرائے افراد کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس سے بھی پوری قوم آگاہ ہے۔چوہدری اعتزاز احسن،جناب لطیف کھوسہ اور جناب مصطفی نواز کھوکھر کو محض اختلاف رائے کی بنیاد پر جس طرح پارٹی میں بے اثر کر کے انکی پارٹی سے رخصتی کی راہ ہموارکی گئی ، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتا حکومتی اتحاد، آج بھی ذہنی طور پر 90 کی دہائی میں رہ رہا ہے۔سازشوں اور جوڑ توڑ کے ذریعے عوامی رائے کے اظہار کو روکنے کیلئےجو جتن کئے جارہے ہیں، ان سے پوری قوم خصوصا ًپاکستان کا باشعور نوجوان پوری طرح آگاہ ہے۔پاکستان کی ادھوری پارلیمنٹ اس وقت ربڑ اسٹیمپ بنی ہوئی ہے۔اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں،قراردادوں پر قراردادیں آرہی ہیں،غصے میں آگ بگولا حکمراں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے ہیں،یوں لگتا ہے کہ نامقبولیت کے احساس نے حکمرانوں کو حواس باختہ کر دیا ہے اور پاکستان کی عدلیہ کے پر کاٹنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔شاید یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے ہیں کہ’’ اس وقت کو بھی گزر جانا ہے‘‘۔

ان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بالکل قریب ہے۔عملی طور پر پاکستان کی انتظامی مشینری مفلوج ہے،پاکستان کی وزارت داخلہ تحریک انصاف کی سرکوبی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے،جبکہ وزارت خارجہ،وزیر خارجہ کا’’مثبت امیج‘‘بنانے میں مصروف عمل ہے۔ان دونوں وزارتوں کی ناک کے عین نیچے بھارت نے جی 20 کے سیاحت ورکنگ گروپ اور نوجوانوں کے ایک گروپ کا اجلاس مئی ء 2023 ء کو سری نگر میں منعقد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔اس سے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر جو منفی اثرات مرتب ہوں گے وہ تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن حکومت پاکستان کی ترجیحات ملاحظہ ہوں کہ وہ بھارت کے اس اقدام کے جواب میں آزاد کشمیر کے اندر حکومتی تبدیلی کے عمل میں دن رات مصروف ہے۔بھارت کے اس اقدام پر کوئی موثر احتجاج نہیں ہوا نہ ہی شریک ممالک کو بائیکاٹ پر آمادہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہورہی ہے۔اندرونی محاذ پر تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کو ادھ موا کر دیا ہے۔عمران خان نے توکورونا کے دنوں میں بھی معیشت کو کھڑا کردیا تھا اور عام آدمی کے روزگار پر بھی قدغن عائد نہ کی گئی تھی لیکن آج حکومتی اتحاد جو گزشتہ پچاس سال سے اقتدار کی غلام گردشوں کے مسافر ہیں۔وفاق میں ان کی مرضی کی حکومت ہے۔سینیٹ سندھ اور بلوچستان کی منتخب حکومتیں بھی ان کے اشارہ ابرو پر کام کرتی ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتیں بھی انہی کی وفاداری کا دم بھرتی ہیں لیکن پھر بھی کچھ سنبھل نہیں رہا۔

اپریل 2022 سے لیکر اپریل 2023 تک ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھ سکا جس سے معیشت سنبھل سکے۔وفاقی حکومت اور ان کے زیر سایہ پنجاب کی نگراں حکومت انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔تحریک انصاف کے لوگوں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے۔عمران خان پر درج مقدمات کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں۔تمام حکومتوں کا واحد مقصد عمران خان اور تحریک انصاف کو دیوار سے لگانا ہے اس کوشش میں معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے،ڈالر آسمانوں کی طرف نکل جائے،غریب آدمی کا سانس لینا بھی محال ہو جائے،اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔میں حکمرانوں کو صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار نہیں رہا،صدر ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج غروب ہوا،مشرف بھی زوال آشنا ہوئے بغیر نہ رہ سکا،تو ان کے اقتدار کا سورج بھی ایک دن غروب ہونا ہے،الیکشن سے جتنا بھی راہ فرار اختیار کر لیں، انہیں عوامی عدالت میں آنا پڑے گا،اپنے غیر آئینی اقدامات کا جواب دینا پڑے گا،جس شخص نے بھی آئین توڑا ہے وہ قدرت کے غضب کا شکار ہوا ہے، کیا موجودہ حکمراں اس سے بچ پائیں گے؟ وقت کی گردش میں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن یہ گردشِ ٹل نہیں سکتی۔بشکریہ جنگ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

امام خمینی رضوان اللہ علیہ کا سیاسی مکتب

(تحریر: ظفر اقبال) امام خمینیؒ کا سیاسی مکتب موجودہ دور میں انبیاء و آئمہ طاہرین …