اتوار , 28 مئی 2023

مولانا فضل الرحمن کی ضد اور عمران خان کی مقبولیت

(نسیم شاہد)

وزیراعظم کی صدارت میں اتحادی کا جو اجلاس ہوا اُس میں پیپلزپارٹی سمیت بیشتر جماعتوں نے گرینڈ ڈائیلاگ کی حمایت اور غیر مشروط مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تاہم جمعیت العلمائے اسلام نے مخالفت کی۔ مولانا فضل الرحمن پہلے ہی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کوئی سیاسی قوت نہیں اس لئے اُن کے ساتھ مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔مولانا صاحب نے یہ بات کس بنیاد پر کی ہے، اس کی وضاحت تو وہی کر سکتے ہیں وگرنہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس وقت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے مقابلے میں اگر کوئی اپوزیشن کھڑی ہے تو وہ تحریک انصاف ہی ہے،اگر بقول مولانا فضل الرحمن یہ بات مان لی جائے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کوئی سیاسی قوت ہی نہیں رکھتے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے، پھر تو ملک میں راوی کو چین ہی چین لکھنا چاہئے،بلکہ پنجابی محاورے کے مصداق سنجیاں ہو جاون گلیاں تے وچ پی ڈی ایم پھرے۔سیاسی مخالفت اپنی جگہ تاہم یہ حقیقت کوئی کیسے جھٹلا سکتا ہے کہ تحریک انصاف ملک کی بڑی سیاسی حقیقت ہے، پچھلے ایک برس سے حکومت کے وزراء خود مانتے ہیں کہ عمران خان نے ایک دن کے لئے بھی ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا، سیاسی قوت نہیں تھی تو تحریک انصاف ایسا کیسے کر سکتی تھی، پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت انتخابات میں نہیں جانا چاہتی اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اُسے اپنی شکست کا خوف ہے کیونکہ تحریک انصاف کی مقبولیت مختلف مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق عروج پر ہے۔ مولانا فضل الرحمن عمران سے ذاتی پرخاش رکھتے ہیں اور اس کی وجہ ڈھکی نہیں، خود عمران خان بھی انہیں ایک خاص نام سے پکارتے رہے ہیں اور دونوں کے درمیان شخصی ٹکراؤ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا بس نہیں چلتا کہ وہ عمران خان کو سیاست سے اُٹھا کر باہر پھینک دیں مگر سب کو معلوم ہے کہ سیاست سے نکالنا کسی جماعت یا شخصیت کے بس میں نہیں ہوتا، یہ عوام کا اختیار ہے جسے چاہیں سیاست میں مقبولیت کا تاج پہنا دیں اور جس چاہیں عدم مقبولیت کا شکار کر دیں۔

مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو اتنی اہمیت دی گئی کہ پوری حکومت اُن کے ساتھ مذاکرات کرے تو یہ بہت بڑی ہزیمت ہو گی، وہ چاہتے ہیں عمران خان کو ایک غیر اہم سیاسی کل پرزہ سمجھ کے بھلا دیا جائے، اُن کا استدلال یہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے،اُن کی اپنی کوئی سیاسی ساکھ موجود نہیں، ماضی میں جو کچھ بھی ہوا ہو، اُس سے قطع نظر آج کے حالات یہ ہیں کہ عمران خان ایک بڑی سیاسی حقیقت ہیں اور انہیں اس مقبولیت کے لئے کسی بیساکھی کی ضرورت بھی نہیں،اس وقت ملک میں جتنی بھی ہلچل ہے اور بے یقینی پائی جاتی ہے اُس کا سبب یہی ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابات کے لئے زوردار مہم چلا رکھی ہے اس مہم کو کوئی نظر انداز کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا،ابھی اس مہم میں تیزی آئے گی کیونکہ حکومت نے انتخابات کرانے نہیں اور معاملہ سڑکوں پر آنا ہے۔ جلسے جلوس ہوں گے، عید کے بعد ایک سماں بندھ جائے گا، ویسے بھی آئینی مدت کی تکمیل ہونے والی ہے، حکومت اگر اُس وقت بھی انتخابات کی طرف نہیں آتی تو پھر ملک میں ایک بڑا سیاسی انتشار دیکھنے میں آئے گا۔دیکھا جائے تو اس وقت مذاکرات کی ضرورت اتحادی حکومت کو زیادہ ہے، کیونکہ اگر اُس نے خود کو اور پاکستان کو انتشار سے بچانا ہے تو سیاسی سطح پر ٹھہراؤ پیدا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پیش رفت کرنا ہو گی، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ من مانے فیصلے کرتے رہیں، آئینی مدت کو بھی پامال کر دیں اور سکون سے حکومت بھی کرتے رہیں۔پیپلزپارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس حقیقت کو سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے گرینڈ ڈائیلاگ کی حمایت کر دی ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ انتخابات کو غیر معینہ عرصے تک نہیں ٹالا جا سکتا۔ وزیراعظم کی صدارت میں اتحادی جماعتوں کے اجلاس کی جو اندرونی تفصیلات میڈیا پر آئیں اُن کے مطابق پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بارے میں اپنی اعلیٰ قیادت کو آگاہ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) بھی مذاکرات کی حامی ہے اور زین بگٹی کے سوا باقی سب جماعتوں نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن اکیلے رہ گئے ہیں۔بغضِ عمران میں اُن کے فیصلے کی تائید اتحادی جماعتیں نہیں کر رہیں۔مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں انہیں ویٹو پاور حاصل ہے، پی ڈی ایم کی جماعتوں نے غیر مشروط مذاکرات کی شرط رکھ دی ہے جو اُن کا حق ہے تاہم جب مذاکرات ہوں گے تو اُن میں لازماً انتخابات کا معاملہ زیر غور آئے گا کیونکہ اس کے سوا تو اور کوئی بڑا ایجنڈا ہے بھی نہیں۔

الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی دن انتخابات ملک کے لئے سود مند ہوں گے اور اپنی طرف سے آٹھ اکتوبر کی تاریخ کا بھی دفاع کیا ہے۔اُدھر وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرائے جائیں تاکہ سکیورٹی کے ایشوز سامنے نہ آئیں،اُس درخواست پر سماعت بھی شروع ہو چکی ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنا چار اپریل کا فیصلہ واپس لے لیتی ہے اور پنجاب میں انتخابات14مئی کو نہیں ہوتے تو کم از کم سپریم کورٹ کے اندر ہی ایک ہی وقت پر انتخابات کرانے کی کوئی حتمی تاریخ سامنے آ جائے گی۔ ایسا ہوتا ہے تو ایک بڑا جھگڑا ختم ہو جائے گا مگر سوال پھر وہی ہے کہ اس تاریخ کی گارنٹی کون دے گا۔ممکن ہے جب وقت قریب آئے تو حکومت کچھ اور توجیحات پیش کر سکے، مدت میں اضافے کی کوشش کرے۔گویا اس حوالے سے ایک بے یقینی موجود رہے گی جس کا واحد حل یہ ہے کہ سیاسی قوتیں آپس میں مل بیٹھیں اور کسی متفقہ نتیجے پر پہنچ کر پرامن انتخابات کے انعقاد کا معاہدہ کریں، کشیدگی کی فضاء میں انتخابات بھی خطرناک ہوں گے اور ناخوشگوار واقعات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔اگر موجودہ حکمران اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف کو دیوار سے لگا کر اپنی حکمرانی کی مدت کو لامتناہی طور پر بڑھا سکتا ہے تو یہ اُس کی خوش فہمی ہے۔ایک طویل عرصے تک ملک بے چینی اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔مولانا فضل الرحمن، عمران خان کی مخالفت میں ایسی حد پار نہ کریں جو بعد میں ایک بڑی خرابی کا باعث بن جائے۔پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ہوش کے ناخن لے کر مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔پچھلے ایک سال کی مدت پوری ہونے پر وزیراعظم شہباز شریف فخر کا اظہار کر رہے تھے، حالانکہ فخر کا اظہار کرنے کی ایک وجہ بھی نہیں تھی۔ ملک اس ایک برس میں معاشی طور پر بہت پیچھے چلا گیا ہے اور مہنگائی نے کروڑوں عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ سیٹ اپ جتنے عرصے بھی چلے گا ایک بے یقینی کی تلوار لٹکتی رہے گی، یقین و استحکام صرف اُسی صورت میں آئے گا جب ملک میں عام انتخابات ہوں گے، اس کے لئے تمام سیاسی قوتوں کو مذاکرات پر آمادہ ہونا چاہیے،اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

کاش ! عمران خان صبر کرسکتے

(تحریر : انجم فاروق) ہم بھی عجیب قوم ہیں! ہمارا سب سے اہم مسئلہ دم …