بدھ , 7 جون 2023

23 کروڑ میں ایک نجات دہندہ

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

اس وقت اگر ہم خطے پہ نگاہ دوڑائیں تو پاکستان کے نزدیکی و دوست ممالک نے اپنی سفارتی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے ذریعے دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے، ہم اپنے سب سے قریبی دوست سمجھے جانے والے چین کی موثر حکمت عملی، بہترین سفارت کاری، اور منفرد کردار کی بدولت مشرق وسطیٰ، ایران، شام، سعودیہ، بحرین، یمن، عراق کے باہمی تعلقات میں آنے والی تبدیلیوں پہ دقت کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ناممکنات کو ممکن بنایا گیا ہے، ایران سعودیہ سفارتی تعلقات کی بحالی کے اعلان کیساتھ ہی بڑی برق رفتاری سے سعودیہ شام تعلقات کی بحالی کی جانب اقدامات اور پھر شام کی عرب لیگ میں واپسی کی راہ کشادگی، شام کے عرب امارات کیساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی، ایران، بحرین تعلقات کی بحالی اور سب سے بڑھ کے یمن و سعودیہ تعلقات کی بحالی بالخصوص سینکڑوں جنگی قیدیوں کا تبادلہ سے نہ صرف خطے پہ گہرے و مثبت اثرات مرتب کریں گے بلکہ عالمی سطح پہ بھی ایک نئی انگڑائی لی جا رہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ 2011ء سے لے کر اب تک، کی گئی غلطیوں کا ازالہ ہونے جا رہا ہے۔ اس خطے میں جہاں ہر سمت امریکی افواج اور بحری بیڑے موجود ہیں اور اسرائیل نامی ناجائز ریاست اپنی بدمعاشی کے ذریعے مرضی کرتا آرہا ہے کیونکہ امریکہ جیسی چھتری موجود ہے جو ویٹو پاور ہونے کے ناطے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، اب اس کے دن گنے جا چکے ہیں، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے سب سے محترم و مقدس مقامات حجاز مقدس میں موجود ہیں، جہاں کے حکمران اگر امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ درست انداز میں ادا کریں تو بہت سی مشکلات کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ بہر حال ایسے وقت میں جب ہمارے ہمسایہ و دوست ممالک اپنی پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی لا کر اپنے ہر طرح کے معاملات میں، مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے آزادانہ کردار ادا کرنے کی جانب عملی قدم بڑھا چکے ہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے حکمران اب بھی امریکہ و آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس وقت پاکستان کو چین، سعودیہ، ایران، روس، کیساتھ کاندھا ملا کے کھڑا نہیں ہونا چاہیئے تھا؟ کیا یہی وہ وقت نہیں کہ جب امریکی تسلط و غلامی سے جان چھڑا کے ملک کی سمت درست کر لی جاتی، ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کر لیا جاتا۔ ایک طرف خطے میں واقع ہونے والی تبدیلیاں ہیں تو دوسری طرف ملک میں سیاسی افراتفری و انتشار عروج پر ہے، تمام سیاسی گروہ چاہے ان کا تعلق حکمران اتحاد سے ہو یا اپوزیشن پارٹیوں سے کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو برسر اقتدار ہیں وہ کسی بھی صورت اقتدار سے الگ ہونے کیلئے تیار نہیں، آئین، قانون، روایات، اصول، ضابطے، اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے مگر اقتدار ہاتھ سے نہ جانے پائے۔

ایک سال کے دوران موجودہ حکمرانوں نے اگر کسی کی کوئی خدمت کی ہے تو وہ ان کی اپنی ذات ہے، نیب کیسز ختم کرکے اپوزیشن کو عدالتوں کے چکروں میں ڈالا ہوا ہے جبکہ مہنگائی کی چکی میں پسے جانے والے عوام جن کے پاس دو وقت سوکھی روٹی کھانے کو کچھ نہیں بچی، یوٹیلٹی بلز کی آسمان کو چھوتی قیمتیں سفید پوش و تنخواہ دار طبقے کو فاقوں پہ مجبور کر رہے ہیں، لوگ مجبور ہوکر خودکشیوں پہ اتر آئے ہیں، ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف امن و امان کی مخدوش صورتحال، جہاں ایک دن میں کئی مقامات پر دہشت گرد حملے کر رہے ہیں، سیکیورٹی فورسز اور عام عوام بھی نشانہ بن رہے ہیں، ایسے میں ملک کی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہونا چاہیئے تھی کہ جو لوگوں کو ریلیف دے کر اور ملک کی خارجہ پالیسی کی جہت کو درست راہ پہ لگا کے تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیتی۔

آج اگر ہم دیکھیں تو موجودہ حکمران تو جیسے آئے ہی اپنے کیسز ختم کرنے، اپنا نقصان پورا کرنے، اپنا سود وصول کرنے اور ملک کو گروی رکھنے، غلامی کا بھاری طوق گلے میں ڈالنے کی ہل جل ہی نہ سکیں۔ اس وقت ہم دیکھیں تو ملک کا ستون سمجھے جانے والے کسی بھی ادارے کی کچھ وقعت نہیں رہی، پارلیمنٹ، عدلیہ، افواج پاکستان، سیاست مدار، مذہبی جماعتیں، ہر سو تاریکی ہی نظر آتی ہے، امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی کہ جس سے امید باندھی جا سکے کہ کچھ برس بعد ہی صحیح کچھ بہتری لے آئیں گے، سوشل میڈیا کو دیکھیں یا الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا کو ملاحظہ کریں ایسا لگتا ہے ہم کسی بنانا ری پبلک سے بھی گئے گذرے ملک کے باسی ہیں، ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت دنیا میں کیسے اپنا موثر کردار رکھتا ہے۔

ہم سے جدا ہونے والا بنگلہ دیش بھی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بہت آگے نکل گیا ہے، ہمارے ہمسائے میں ایران تینتالیس برس سے سخت ترین پابندیوں کا شکار رہ کے بھی شاہراہ ترقی پہ گامزن ہے، افغانستان کی کرنسی بھی ہمارے روپے سے بہتر پوزیشن رکھتی ہے، آخر کب اس ملک کی قسمت تبدیل ہوگی، کب اس ملک میں بسنے والے غریبوں کے دن بدلیں گے، کوئی تو اس ملک کو اس کے قیام کے مقاصد، اس کے بانیان کے ویژن اور فرمودات کے مطابق چلانے کیلئے میدان میں نظر آجائے، تئیس کروڑ میں کوئی ایک خالص، کھرا، سچا، بے داغ، مخلص دکھائی دے جو درد و الم میں اٹے عوام کے زخموں پہ مرہم ہی رکھ دے اور نجات دہندہ کہلائے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ایران میں انقلاب کے بعد علمی و تحقیقی پیشرفت

(تحریر: سید اسد عباس) انقلاب اسلامی ایران کو آئے ہوئے تقریباً 43 برس ہوچکے ہیں۔ …