منگل , 6 جون 2023

اسلامی مزاحمت کے میزائل اور اسرائیل کی ناکام فوجی صنعت

(تحریر: عبدالباری عطوان)

اسرائیل کو گذشتہ چند عشروں سے اپنی فوجی صنعت، خاص طور پر "فولادی گنبد” نامی فضائی دفاعی نظام پر بہت ناز تھا اور وہ بعض عرب ممالک کو یہ دفاع نظام بیچنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔ لیکن مئی 2021ء میں شمشیر قدس معرکے نے اس فضائی دفاعی نظام سمیت اسرائیل کی فوجی صنعت کی قلعی کھول کر رکھ دی اور اس کی عدم افادیت سب پر واضح ہو گئی۔ اس معرکے کے بعد بھی فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور غاصب صیہونی فوج کے درمیان انجام پانے والی متعدد جھڑپوں میں فولادی گنبد کی ناکامی اور نقائص مزید کھل کر سامنے آتے گئے۔ اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں اس وقت سامنے آئی جب غزہ کی پٹی میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صیہونی جیل میں 44 سالہ فلسطینی قیدی خضر عدنان کی شہادت کے موقع پر مقبوضہ علاقوں پر راکٹ برسائے۔

گذشتہ ہفتے منگل کی رات ان راکٹ حملوں کے بعد عبری زبان میں صیہونی ذرائع ابلاغ نے فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی نظام کی ناکامی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق فولادی گنبد صرف دو راکٹ فضا میں تباہ کرنے میں کامیاب ہوا جبکہ دسیوں دیگر راکٹ اپنے نشانوں پر جا لگے۔ اس تنقید کے بعد صیہونی فوج نے بھی اپنے فضائی دفاعی نظام کی خراب کارکردگی کی وجوہات جاننے کیلئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یوں شہید خضر عدنان کی شہادت کے بعد انجام پانے والی جھڑپوں میں غاصب صیہونی رژیم کو ملنے والا سب سے بڑا سرپرائز فولادی گنبد کی شدید ناکامی تھا۔ یہ وہی فضائی دفاعی نظام ہے جس پر صیہونی رژیم ایک عرصے سے تکیہ کرتے آئے ہیں اور اسے اپنے لئے اہم نقطہ قوت قرار دیتے ہیں۔ اب اس کی عدم افادیت ان پر پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔

غاصب صیہونی فوج نے بھی اس بڑی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی وجہ فنی خرابی بیان کی ہے۔ صیہونی فوج کے مطابق اس فنی خرابی کے باعث فولادی گنبد کی فوری ردعمل دکھانے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی اور وہ اسلامی مزاحمت کے راکٹوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ عبری زبان میں شائع ہونے والا صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے فوجی امور کے ایک ماہر کے بقول اعلان کیا ہے کہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے انجام پانے والے راکٹ حملوں کے دوران فولادی گنبد کی کامیابی کی شرح 67 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل صیہونی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیجری نے دعوی کیا تھا کہ فولادی گنبد دشمن کی جانب سے فائر ہونے والے 90 فیصد راکٹس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دونوں میں واضح تضاد قابل مشاہدہ ہے۔

حالیہ جھڑپوں میں فولادی گنبد کی ناکامی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے قریب دس سے زیادہ صیہونی آبادکار زخمی ہو گئے تھے جو غاصب صیہونی رژیم کیلئے خطرناک واقعہ ہے۔ صیہونی فوج اور اس کے ترجمان یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فولادی گنبد کی حالیہ ناکامی کی اصل وجہ اس میں فنی خرابی تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فضائی دفاعی نظام ماضی کی طرح باصلاحیت ہے لیکن اسلامی مزاحمتی گروہوں کے راکٹس زیادہ ترقی یافتہ اور جدید ہو گئے ہیں۔ اسی طرح صیہونی فوج کا یہ بھی دعوی ہے کہ فلسطینی مجاہدین کی فوجی مہارت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ فوجی تربیت کے نتیجے میں اب زیادہ مہارت سے راکٹ فائر کرتے ہیں۔ انہیں یہ فوجی تربیت فلسطین کے اندر بھی فراہم کی جا رہی ہے اور باہر بھی ان کے تربیتی کیمپس موجود ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطین اور جنوبی لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی گروہ روز بروز غاصب صیہونی رژیم پر جنگ کے نئے قوانین تحمیل کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال غزہ کی پٹی، جنوبی لبنان اور مغربی کنارے سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں اور راکٹ حملوں کا ایک ہی وقت انجام پانا ہے۔ جنین بٹالینز، عرین الاسود، نابلس، عزالدین قسام بٹالینز، الاقصی بٹالین اور القدس بریگیڈ کی جانب سے نئے سال کے آغاز پر مسلسل مسلح کاروائیاں انجام پائی ہیں جن میں اب تک 20 سے زائد صیہونی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ بھی انہی نئے قوانین کا حصہ ہے۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں نے ابھی شہید خضر عدنان کی شہادت کا بدلہ نہیں لیا۔ اسی طرح گذشتہ ہفتے نابلس پر 200 سے زائد صیہونی فوجیوں کے حملے کا انتقام بھی باقی ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ عنقریب دوبارہ مقبوضہ فلسطین میں مسلح مزاحمتی کاروائیوں کی نئی لہر رونما ہو گی۔

فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی نظام کی تشکیل اور نگہداشت پر امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے اربوں ڈالر کی رقم خرچ ہو چکی ہے اور مسلسل ہو رہی ہے۔ لیکن یہ دفاعی نظام اس رژیم کے جعلی رعب اور دبدبے میں اضافہ کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ جس طرح حزب اللہ لبنان نے 2006ء کے معرکے میں کورنٹ میزائلوں کے ذریعے صیہونی میرکاوا ٹینکوں کے افسانوی تصور کو نابود کر دیا اسی طرح ہم عنقریب غاصب صیہونی رژیم کے ایف 16 اور ایف 15 جنگی طیاروں کے افسانوی کردار کے خاتمے کا بھی مشاہدہ کریں گے۔ خاص طور پر جب غزہ کی پٹی اور جنوبی لبنان میں مجاہدین نے زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ یوں اسرائیل کی فوجی صنعت کے غبارے سے بہت جلد ہوا نکلنے والی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

کور کمانڈر ہاؤس جلاؤ گھیراؤ: یاسمین راشد کا کیس دیگر گرفتار افراد سے مختلف کیسے بن گیا؟

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر …