(تحریر: علی احمدی)
گذشتہ روز منگل 9 مئی 2023ء کی صبح غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی میں مختلف جگہوں پر ڈرون اور میزائل حملے انجام دیے۔ گذشتہ چند سالوں کی مانند ان حملوں کا نشانہ اسلامی مزاحمتی گروہ اسلامک جہاد سے تعلق رکھنے والے مجاہدین تھے۔ ان حملوں میں اسلامک جہاد کے تین اعلی سطحی کمانڈرز شہید ہو گئے جن میں قدس بٹالینز کی فوجی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل جہاد شاکر الغنام، قدس بٹالینز کی فوجی کمیٹی کے رکن خلیل صلاح البہتینی اور غزہ کے شمالی حصے کے کمانڈر طارق محمد عزالدین شامل تھے۔ ان تینوں کمانڈرز کے گھروں پر فضائی حملے کئے گئے جن میں ان کے اہلخانہ کے افراد بھی شہید ہوئے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے، ان فلسطینی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کن اہداف کے تحت انجام پائی ہے؟
1)۔ خطرناک ترین مزاحمتی گروہ ہونے کے ناطے اسلامک جہاد پر ضرب لگانا
اگرچہ فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تنظیم حماس ہے اور اسے غزہ پر حکومت بھی حاصل ہے، لیکن گذشتہ ایک عشرے کے دوران صیہونی سکیورٹی اداروں نے اسلامک جہاد کو فلسطین کی خطرناک ترین مزاحمتی تنظیم قرار دیا ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد ان مزاحمتی اقدامات کی نوعیت ہے جو اسلامک جہاد اس دوران غاصب صیہونیوں کے خلاف انجام دیتی آئی ہے۔ اسلامک جہاد نے خود کو ہمیشہ سیاسی سرگرمیوں سے جدا رکھا ہے اور اپنی پوری توجہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد پر مرکوز کر رکھی ہے۔ لہذا صیہونی حکمران حماس کے خلاف تو سیاسی ہتھکنڈے بروئے کار لا سکتے ہیں لیکن اسلامک جہاد کے خلاف ایسے ہتھکنڈے کوئی افادیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی رژیم اسلامک جہاد کو فوجی جارحیت کا نشانہ بناتی رہتی ہے۔
2)۔ حماس اور جہاد اسلامی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش
غاصب صیہونی رژیم نے ہمیشہ سے فلسطینیوں میں اختلافات اور تفرقہ ڈالنے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران اسلامی مزاحمت کی تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد کے درمیان اختلافات پیدا کرنا بھی غاصب صیہونی رژیم کی بنیادی پالیسی میں شامل رہا ہے۔ دو سال پہلے شمشیر قدس معرکے کے بعد صیہونی حکمرانوں نے اس بارے میں کوششیں تیز کر دی ہیں۔ صیہونی رژیم نے 2022ء میں اپنے تمام جارحانہ اقدامات اور 2023ء میں بھی انجام پانے والی جارحیت میں اسلامک جہاد کو نشانہ بنایا ہے۔ اسلامک جہاد کے فوجی کمانڈرز کی حالیہ ٹارگٹ کلنگ کا بھی ایک اہم مقصد حماس اور اسلامک جہاد کے درمیان تفرقہ ڈالنا ہے۔
3)۔ اپنے اوپر شدید اندرونی اور عالمی دباو کم کرنے کی کوشش
جب سے مقبوضہ فلسطین میں بنجمن نیتن یاہو برسراقتدار آیا ہے، غاصب صیہونی رژیم مسلسل اندر سے شدید عوامی احتجاج اور عالمی سطح پر مختلف ممالک کے دباو کا شکار رہی ہے۔ گذشتہ 6 ماہ سے مقبوضہ فلسطین نیتن یاہو کی پالیسیوں، خاص طور پر عدلیہ میں اصلاحات کی پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف خطے میں عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا منصوبہ اور ابراہیم معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ ایسے حالات میں صیہونی حکمرانوں کے پاس بہترین راستہ عوام کی توجہ بیرونی مسائل کی جانب مبذول کروا کر اندرونی مسائل سے ہٹانا ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ پر صیہونی جارحیت اور اسلامک جہاد کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد ایمرجنسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور مقبوضہ فلسطین میں مظاہروں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
4)۔ مغربی کنارے اور قدس شریف میں مزاحمت کی شدت کم کرنا
جیسا کہ بیان ہو چکا کہ گذشتہ ایک سال میں اسلامک جہاد نے اپنی مزاحمتی سرگرمیوں میں بہت زیادہ شدت لائی ہے۔ اس شدت کا اثر مغربی کنارے اور قدس شریف میں ظاہر ہوا ہے۔ مغربی کنارہ اور قدس شریف غاصب صیہونی رژیم کے زیر کنٹرول ہیں اور گذشتہ ایک برس سے وہاں مزاحمتی کاروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان مزاحمتی کاروائیوں میں زیادہ کردار اسلامک جہاد نے ادا کیا ہے۔ لہذا غاصب صیہونی رژیم غزہ میں اسلامک جہاد کے فوجی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے جہاں ایک طرف غزہ میں اس جہادی تنظیم کو کمزور کرنے کے درپے ہے وہیں مغربی کنارے اور قدس شریف میں بھی مزاحمتی سرگرمیاں کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جارحانہ اقدام کا اصل مقصد ہی مغربی کنارے اور قدس شریف میں مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔
5)۔ غزہ میں اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنا اور خوف و ہراس پیدا کرنا
2006ء میں جب سے غزہ میں حماس برسراقتدار آئی ہے، غاصب صیہونی رژیم نے اس علاقے کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے جس کا واحد مقصد غزہ میں اسلامی مزاحمت کو کمزور کر کے ختم کرنا ہے۔ اسی طرح صیہونی حکمران اس مقصد کے حصول کیلئے گاہے بگاہے غزہ کی پٹی پر جارحانہ اقدامات بھی انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان جارحانہ اقدامات کا ایک مقصد عام شہریوں کو خوف و ہراس اور مایوسی کا شکار کر کے اسلامی مزاحمتی گروہوں کی حمایت سے باز رکھنا ہے۔ غزہ میں اسلامی مزاحمت غاصب صیہونی رژیم کیلئے آنکھ کا کانٹا بن چکی ہے۔ اسلامی مزاحمت کی میزائل طاقت نے صیہونی رژیم کو لگام ڈال دی ہے اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب تک صیہونی رژیم نے غزہ میں اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنے کی جتنی کوشش کی ہے اس کا الٹا نتیجہ ظاہر ہوا ہے اور اسلامی مزاحمت پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوئی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔