اس وقت جبکہ واشنگٹن ڈی سی میں، اس بات پر کہ آیا اس کے قرض پر ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے امریکی حکومت کے قرضے کی حد کو بڑھایا جائے،بے جا تفاخر کا کھیل کھیلا جارہے، ،اسی دوران ایک چیز جس پر ماہرین متفق ہیں وہ یہ ہے کہ ڈیفالٹ تباہ کن ہوگا۔
ریاستہائے متحدہ نے 19 جنوری کو اپنی قرض لینے کی حد کو عبور کیا۔ اس کے بعد سے، امریکی وزارت خزانہ نے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے متعدد اقدامات نافذ کیے ہیں، لیکن یہ صرف چند دنوں یا زیادہ سے زیادہ ہفتوں کی بات ہے، کہ یہ اقدامات اپنی افادیت کھودیں اور امریکی حکومت اس پر واجب الادا رقم ادا کرنے سے قاصر ہوجائے۔
یہاں اس امکان کی وضاحت کی جاتی ہے کہ اگر یہ بے مثال واقعہ رونما ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔
کیا امریکہ کے ڈیفالٹ کرنے کے واقعی امکانا ت موجود ہیں ؟
نیویارک یونیورسٹی کے اسٹرن اسکول آف بزنس کے اکنامکس کے پروفیسر لارنس جے وائٹ نے اپنا موقف بتایاکہ واقعی کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ محض معاشی نہیں بلکہ "سیاسی مسئلہ” ہے۔اور اگر زیادہ درست الفاظ میں کہاجائے تو یہ سیاسی معاشیات کا مسئلہ ہے۔
"میں امید کرتا رہتا ہوں کہ کوئی حل نکل آئے گا، لیکن یہ چکر بازی کا کھیل ہے، اور عام طور پر کوئی نہ کوئی گھماؤ پھیر کرتاہے اور ٹکراؤ سے بچ جاتا ہے… لیکن بعض اوقات لوگ چٹان کے آخری کنارے تک چلے جاتے ہیں، اور یہی بڑی پریشانی ہے،” انہوں نے کہا۔
ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے، کانگریس کو قرض کی حد کواوپر اٹھانا پڑے گا، لیکن ریپبلکن ایسا کرنے کے لیے اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صدر جو بائیڈن، جو ایک ڈیموکریٹ ہیں، کانگریس میں ایک سادہ ووٹ چاہتے ہیں جو صرف حکومت کے قرض کی حد کو بڑھانے کی پریشانی سے نمٹنےکے لیے ضروری ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے درمیان تعطل کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے کیونکہ ایک مقررہ تاریخ کے بعد ٹریژری کے پاس اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے رقم ختم ہو جائے گی۔اس صورت حال سے بچنے کے لیے، اس تاریخ کی حد کو جون کے آغاز سے بڑھا کر اگست کے وسط تک لے جایا گیا ہے اور اس کی وجہ اپریل میں محصولات میں کمی بتائی جا رہی ہے۔ اینالیٹکس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر برنارڈ یاروس نے ایک نیوز چینل کو بتایا ۔
یاروس نے کہا کہ اگر ٹریژری جون کے وسط تک لنگڑا سکتی ہے، تو اس میں کاروباروں اور افراد سے ٹیکس وصولیوں میں "اضافہ” ہوگا اور نئے غیر معمولی اقدامات میں 150 بلین ڈالر کے قریب رقم وصول کی جائے گی جو جولائی کے آخر تک یا اس سے بھی آگےاگست کے آغاز تک رقم کے بہاؤ کو جاری رکھنے کے قابل بنا دے گی۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اسے سانس لینے کی گنجائش مل سکے گی یا نہیں ۔
بدترین صورت حال کیا ہو سکتی ہے؟
ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے ساتھ امریکہ، ہفتوں پر محیط ڈیفالٹ میں جا سکتا ہے۔
یاروس نے کہا کہ ایسی صورت حال "ایک تباہ کن منظرنامہ” ہو گی اور اس کے بعد 2008 کے مالیاتی بحران جیسی کساد بازاری ہو گی۔
ایسے میں وفاقی حکومت کو فوری طور پر اپنے اخراجات میں کمی کرنا ہوگی اور سرکاری اخراجات میں بھی کمی کرنا ہوگی۔جیسا کہ یہ کٹوتیا ں معیشت کے ذریعے اپنے راستے پر چلتی ہیں اس سے، "شرح نمو پر اثر بہت زیادہ ہوگا،” (یعنی کٹوتیاں گروتھ ریٹ پر منفی اثر ڈالتی ہیں) یاروس اور موڈیز کے متعدد ساتھیوں نے مارچ میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں کہاتھا۔
وائٹ نے کہا کہ اس کے علاوہ، مالیاتی منڈیوں میں افراتفری ہوگی، شرح سود مزید بڑھے گی اور ڈالر کی طاقت میں کمی آئے گی۔وائٹ نے کہا کہ اگر سیاسی تعطل آگے بڑھتا ہے تو شرح سود اور بھی بڑھ جائے گی جو، لوگوں کو قرض لینے یا سرمایہ کاری کرنے سے باز رکھے گا۔”اس کی بازگشت پوری دنیا میں ہوگی،” انہوں نے کہا۔ ’’یہ کسی کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔‘‘
ایک مختصر خلاف ورزی
یہاں تک کہ اگر امریکہ صرف چند دنوں کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے، تب بھی معیشت کے لیے اس کے نتائج برآمد ہوں گے۔وائٹ نے کہا، "دنیا کہے گی کہ ہم امریکی ٹریژری پر اتنا بھروسہ نہیں کر سکتے جیسا کہ ہم پہلے کرتے تھے، اور اس سے لوگ ٹریژری کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہو جائیں گے،” وائٹ نے کہا۔اور اس طرح امریکی معیشت کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچنے کے واضح امکانات بڑھ جائیں گے۔
"ٹریژری بلز اور بانڈز کے لیے سود کی شرحیں بڑھ جائیں گی اور یہ بالآخر امریکیوں کے لیے ٹیکس کا ایک بڑا بوجھ بن جائے گا۔”یہ امریکی ڈالر کے متبادل کے مطالبات کو بھی بڑھاوا دے سکتا ہے، جو کئی دہائیوں سے بین الاقوامی مالیات میں بے مثال کرنسی رہی ہے۔
اس کے سیاسی مضمرات میں جو بایئڈن پر پڑنے والا اثر بھی گھمبیر ہو سکتا ہے جس نے اپنے سرد جنگ کے رومانس میں رہتے ہوئے یوکرین کو اندھا دھند امداد دی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوگا کہ اس طرح کی معاشی صورت حال میں یہ شاہ خرچیاں کہاں تک جائز قرار دی جاسکتی ہیں۔
اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں، قرض کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں ٹریژری کے قرض میں کمی کردیں گی، لیکن کسی بھی قسم کی کمی سے بہت سے دوسرے مالیاتی اداروں، غیر مالیاتی کارپوریشنوں، میونسپلٹیوں، انفراسٹرکچر فراہم کرنے والوں کے قرضوں پر کریڈٹ کے اثرات اور نیچے کی سطح کو کم کیا جائے گا،موڈیز نے خبردار کیا ہے۔
وہ ادارے جن کو امریکی حکومت نے پیچھے چھوڑ دیا ہے – بشمول مارگیج فنانسرز فینی مے، فریڈی میک اور فیڈرل ہوم لون بینک – اپنی درجہ بندی میں سب سے زیادہ کمی کا شکار ہوں گے۔
موڈیز نے کہا، "اس منظر نامے میں قانون سازوں کے فوری طور پر پیچھے پلٹ جانے اور ہمارے اس قیاس کے باوجود کہ درجہ بندی کرنے والی ایجنسیاں تنزلی میں ملوث نہیں ہیں، اہم نقصان پہلے ہی ہو چکا ہو گا،” موڈیز نے کہا۔
"حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اس صورت حال کو حل نہیں کیا ہے، یہ اچھی بات نہیں ہے،” وائٹ نے کہا۔بشکریہ شفقنا نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔