بدھ , 24 اپریل 2024

پاکستان میں سوشل میڈیا کی بندش کے باوجود مظاہرے کیوں نہ تھم سکے؟

(فرانسس ماؤ)

پاکستان میں عمران خان کے حامیوں اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی دو محاذوں پر جاری رہی: سڑکوں اور سوشل میڈیا پر۔ اور ایک میدان جنگ میں سابق وزیر اعظم کا پلڑا بھاری رہا۔ منگل کو عمران خان کی گرفتاری کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پاکستان کی حکومت نے مزاحمت کو روکنے کی کوشش میں انٹرنیٹ پر پابندیاں لگا دیں۔

لیکن ملک کے ایک معروف سیاسی رہنما کی گرفتاری کے فوری بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔

لاہور میں نگہت داد نے جیسے ہی یہ خبر سنی تو انھوں نے گھر لوٹنے کی ٹھانی۔ شہر کے وسط میں موجود اپنے دفتر سے نکلتے ہوئے ان کے سٹاف کا پہلے ہی پرتشدد مظاہرین سے سامنا ہو رہا تھا۔

نگہت داد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک ہجوم نے ان کی گاڑیوں پر حملہ کرنے اور ان کو روکنے کی کوشش کی۔‘

نگہت داد پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق پر کام کرتی ہیں۔ انھوں نے اس دوران اس بحث پر بھی نظر رکھی جو زور و شور سے آن لائن جاری تھی۔

سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر آنسوگیس کے دھوئیں اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کی تصاویر گردش کر رہی تھیں۔ عمران خان کی نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں گرفتاری کی ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔

ان کی جماعت، پاکستان تحریک انصاف، اپنے ٹوئٹر پیج پر تیزی سے معلومات فراہم کر رہی تھی۔

ایسے میں مخدوش ہوتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے سوئچ ہی بند کر دیا۔ پورے ملک میں سوشل میڈیا سائٹس بند ہو گئیں، لوگوں کو فیس بک، یو ٹیوب اور ٹوئٹر تک رسائی حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا ہوا۔

چند مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی بلاک ہوئے جبکہ انٹرنیٹ کی رفتار پر بھی اثر پڑا۔

انٹرنیٹ کے اس بلیک آؤٹ کے لیے پاکستانیوں کی اکثریت تیار نہیں تھی۔ جن کے لیے ممکن تھا، انھوں نے وی پی این کا استعمال کیا – یہ ایسی سروس ہے جو کسی صارف کے انٹرنیٹ کے مقام کو بدل دیتی ہے۔ بی بی سی کو ٹریکرز نے بتایا کہ ایسی خدمات کی مانگ میں 1300 فیصد اضافہ ہوا۔

جنوبی ایشیا میں حالیہ برسوں کے دوران انٹرنیٹ کی بندش حکومتوں کا ایک ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکام معلومات پر کنٹرول رکھنے، احتجاج اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ملک کو آف لائن کرتے ہیں۔

سنگاپور کے کاتھک ناچیاپن کہتے ہیں کہ ’حکومتوں کے پاس ایک ہتھوڑا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کو ایک کیل طرح سمجھنا آسان ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں اس بندش کا اثر اس لیے بھی زیادہ ہوا کیوں کہ یہاں ’اصلی خبر‘ سننے کے لیے انٹرنیٹ پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے۔امریکہ کے دی ایٹلانٹک کونسل نامی تھنک ٹینک کے عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’ملک میں عام لوگوں کا مرکزی میڈیا پر اعتماد اس حد تک ختم ہو چکا ہے کہ لوگ آن لائن جا کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔‘

عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں ٹی وی دیکھنا فائدہ مند نہیں کیوں کہ کیا بتایا جا سکتا ہے اور کیا نہیں، اس کو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے۔‘

تو جب عمران خان کی گرفتاری جیسی بریکنگ خبر کا معاملہ ہو تو لوگ آن لائن جاتے ہیں، نامور صحافیوں اور یو ٹیوب چینل کا سہارا لیتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔

عزیر کہتے ہیں کہ ’میں جیو نیوز دیکھ رہا تھا جو ملک کا ایک بڑا براڈکاسٹر ہے لیکن مجھے ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر مظاہروں کے بارے میں زیادہ معلومات مل رہی تھیں کہ کہاں آنسو گیس چل رہی ہے اور کہاں کون زخمی ہوا ہے۔ جیو یہ سب نہیں دکھا رہا تھا۔‘

لیکن سوشل میڈیا پر خبروں کے لیے بھروسہ کرنے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاست کی وجہ سے غلط معلومات، جھوٹی معلومات اور سازشی نظریے سوشل میڈیا پر کثرت سے موجود ہیں جنھیں زیادہ تر مختلف سیاسی اداکار ہی عام کرتے ہیں۔

نگہت داد کا کہنا ہے کہ لوگ جس طرح کی بھی معلومات حاصل کر رہے ہوں، ان کی آن لائن موجودگی کو محدود کرنا بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ’جب آپ انٹرنیٹ بند کر دیتے ہیں تو لوگوں کے پاس معلومات تک رسائی کا اختیار باقی نہیں رہتا۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ایسی پابندی آزادی اظہار رائے، معلومات تک رسائی کے بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہے۔ واضح رہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی کا حق اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے۔

’اب تک کی سب سے سخت سنسرشپ‘
گذشتہ سال اپریل میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان میں انٹرنیٹ سنسرشپ عام ہوتی جا رہی ہے۔

عمران خان نے اپنی سیاسی واپسی کے سفر میں اپنی حکومت کے خاتمے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور ان کی ریلیوں میں ہزاروں افراد شامل ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں انٹرنیٹ مانیٹر کرنے والی کمپنی نیٹ بلاکس کے مطابق عمران خان کی گرفتاری سے قبل ان کی تین ریلیوں کے دوران انٹرنیٹ کی بندش ہوئی لیکن اس بار کی بندش سب سے سخت تھی۔

نیٹ بلاکس کے ایلپ توکر نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ وقتوں میں یہ پاکستان کی سب سے سخت انٹرنیٹ بندش تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اس بار بندش کے مختلف طریقے وسیع پیمانے پر استعمال کیے گئے، موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم دونوں کو نشانہ بنایا گیا، جو بیانیے پر قابو پانے کی واضح کوشش لگتی ہے۔‘

نیٹ بلاکس کے مطابق جن علاقوں میں موبائل نیٹ ورک متاثر ہوا ان کی اکثریت پنجاب میں تھی جو پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور اس وقت عمران خان کا مضبوط گڑھ بن رہا ہے۔

ٹیلی کام اتھارٹی نے بعد میں اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے ہی وزارت داخلہ کی ہدایات پر انٹرنیٹ کی بندش کا انتظام کیا۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے انٹرنیٹ کی بندش ایک اہم قدم تھا جس نے صحت، ایمرجنسی اور معاشی سہولیات تک عوامی رسائی میں مشکلات پیدا کیں۔

دوسری جانب پاکستان کی پہلے سے ہی کمزور معیشت پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا۔ سامان کی رسد سے منسلک شعبے کے ساتھ ساتھ ٹیک کمیونٹی سمیت لاکھوں پاکستانی روزگار کے لیے انٹرنیٹ پر منحصر ہیں۔

بدھ کے دن سینکڑوں پاکستان کاروباری رہنماوں اور انسانی حقوق کارکنوں نے انٹرنیٹ کی بندش کی مذمت کی اور ایک خط کے ذریعے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ملک کے متحرک ٹیک شعبے پر منفی اثر پڑے گا جو بیرونی سرمایہ کاری لانے کے چند ذرائع میں سے ایک ہے۔

تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ حکام عمران خان کی آن لائن مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

تحریک انصاف کو سیاسی حریفوں پر یہ واضح برتری حاصل ہے کہ نوجوان اور ٹیکنالوجی سے لیس ووٹروں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ پارٹی کی سوشل میڈیا مشین مدمقابل جماعتوں سے میلوں آگے ہے۔

اسفندیار میر یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ فار پیس سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو فوج مخالف سیاسی تحریک کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پریشانی لاحق ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’فوج ٹوئٹر پر اس بات پر نظر رکھتی ہے کہ کس ٹویٹ کو کتنی بار شیئر کیا گیا اور کس کو کتنا پسند کیا گیا اور اسی سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سیاسی طور پر کس بات کو عوام کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پی ٹی آئی ٹوئٹر پر اپنے 90 لاکھ صارفین کو وقتا فوقتا باقاعدہ معلومات فراہم کر رہی تھی۔ خود عمران خان کے ٹوئٹر پر ایک کروڑ 90 لاکھ فالوور ہیں، جبکہ فوج کے 60 لاکھ اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے 60 لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں۔

عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ جب فوج اور عمران خان کے راستے جدا ہوئے تو پی ٹی آئی آن لائن فوج کی حمایت کرنے والوں کو بھی اپنے ساتھ ہی لے اڑی۔

عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’تب سے عسکری اسٹیبلشمنٹ کو آن لائن محاذ پر پسپائی کا سامنا رہا ہے اور بیانیے پر قابو پانے میں مشکلات کا شکار رہی ہے۔‘

عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’عسکری اسٹیبلشمنٹ کے پاس وہ صلاحیت نہیں ہے جو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ اس لیے اسے بند کرنا ہی آسان طریقہ تھا۔‘

لیکن سوشل میڈیا کو بند کرنا حالیہ انٹرنیٹ بندش کا صرف ایک پہلو تھا۔ مظاہرین کو منظم کرنے کی کوشش میں واٹس ایپ کافی اہمیت رکھتا ہے۔

سیاسی محاذ پر دونوں اطراف سے اپنا پیغام واٹس ایپ کے ذریعے پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری رہا۔

عزیر یونس کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف نے بہترین انداز میں ایسی کمینوٹیز اور گرپس تشکیل دیے ہیں جن کے ذریعے اپنا بیانیہ یا معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔‘

عمران خان کی رہائی کے بعد انٹرنیٹ کی بندش رفتہ رفتہ ختم ہوئی لیکن سیاسی گرما گرمی اور آن لائن بحث اب تک جاری ہے۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ ’لوگ صرف عمران خان کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ معاشی صورت حال کی وجہ سے بھی جذباتی ہیں۔‘’یہ غصہ اور مایوسی اب پھٹنے کے قریب ہے، ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا ہے۔‘بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …