(تحریر: سید تنویر حیدر)
ترکی کے انتخابات کے ابتداٸی نتاٸج کے مطابق طیب اردگان نے 49.5 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل کمال قلیچدار اوغلو نے 44.9 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ دونوں امیدوار چونکہ پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کرسکے اس لیے وہ 28 مٸی کو انتخابات کے اگلے مرحلے میں زور آزماٸی کریں گے۔ بظاہر یہ مرحلہ بھی اردگان جیت جاٸیں گے۔ دونوں صدارتی امیدواروں کے ووٹوں کے مابین کیونکہ فرق بہت کم ہے، اس لیے اگلے انتخابی مرحلے کے لیے ابھی سے سیاسی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ 5 فیصد ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے سنان اوغان کو ان کی بارگیننگ پوزیشن کی وجہ سے ابھی سے کنگ میکر یا بادشاہ گر کا لقب دے دیا گیا ہے۔
مروجہ جمہوری نظام کی بعض خرابیوں میں سے ایک بڑی خرابی بالخصوص صدارتی طرز حکومت میں یہ ہے کہ چند فی صد مارجن سے جیتنے والا سو فی صد اقتدار کا حامل ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی مضبوط اپوزیشن اس کے تمام عرصہء اقتدار میں اس کے سر پر سوار رہتی ہے اور اکثر اس کے انتخاب پر باقاعدگیوں کا الزام لگاتی رہتی ہے۔ تیسری دنیا کے جمہوری ممالک میں تو ایسے موقعے پر فریق مخالف پر فوری طور پر دھاندلی کا الزام سیاسی مشغلے کے طور پر لگا دیا جاتا ہے۔ امریکہ اور نیٹو کے ممالک اردگان کی قدرے آزاد پالیسی کی وجہ سے یہ نہیں چاہتے کہ وہ دوبارہ ترکی کی صدارت سنبھالیں۔ امریکہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کورنش بجا لانے والا اسے سجدہ بھی کرے۔ حالانکہ ترکی کے اسراٸیل سے سفارتی تعلقات ہیں اور اس اسلامی ملک آذرباٸیجان کا اتحادی ہے، جس نے اپنی سرزمین میں اسراٸیل کو اڈے دیئے ہوئے ہیں۔
امریکہ کا مسٸلہ یہ ہے کہ وہ جس ملک کا دوست ہوتا ہے، اسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سعودی عرب سے بھی وہ اسی قسم کی توقع رکھتا تھا، لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق آخرکار سعودی عرب نے امریکہ کو جھنڈی دکھا دی۔ بات تھوڑے مارجن سے بننے والی تیسری دنیا کی حکومتوں اور ان کی مشکلات کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لمحہء موجود میں الیکشن میں اکثر بڑے جمہوری ممالک میں بھی تھوڑے مارجن سے بننے والی حکومتیں الزامات کی زد میں ہیں، مثلاً امریکہ کو ہی لے لیجیے۔ ٹرمپ ابھی تک اپنی ہار تسلیم نہیں کر رہے۔ گذشتہ انتخابات کے نتاٸج نے امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بحرانی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ امریکی عوام واٸٹ ہاٶس پر چڑھ دوڑی۔ اسراٸیل کے انتخابی حریفوں کی ایک دوسرے پر کم درجے کی سبقت نے اسراٸیل کی سلامتی کو ہی خطرے میں ڈال دیا۔
برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت بھی برطانوی عوام کہ تقسیم کی وجہ سے اپنی طرز کے مساٸل میں جکڑی ہوٸی ہے۔ فرانس کے عوام بھی باہمی اختلافات کا شکار ہیں، جو پرتشدد ہنگاموں کا مظہر ہیں۔ یہ وہ چند بڑے جمہوری ممالک ہیں، جن کا بین الاقوامی سیاست میں اہم کردار ہے۔ لیکن گردش زمانہ دیکھیے کہ کل تک یہ ممالک جو اپنے سے چھوٹے ممالک بالخصوص مسلم ممالک میں تخریب کا موجب بنتے رہے ہیں، آج خود اپنے وجود کو اندر سے ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ نٸی دنیا میں نئے سیاسی تنازعات کا جنم مختلف علاقوں کے استحکام پر سوال کھڑا کر رہا ہے۔ ایسے میں طیب اردگان کا کم مارجن سے جیتنا تیزی سے تبدیل ہوتی ہوٸی علاقاٸی اور بین الاقوامی صورت حال میں ان کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے راستے میں نئی قسم کی مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔
اردگان نے حالیہ کچھ عرصے میں علاقے کے مختلف ممالک میں اپنے سیاسی اور فوجی کردار کو تیزی سے بڑھایا ہے یا بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا پہلا شاخسانہ ہمیں شام میں اس کی مداخلت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ شام اور ترکی کے درمیان اختلاف کی خلیج پہلے سے موجود تھی، لیکن بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے شام مخالف دہشت گردوں کو اپنے علاقے میں تربیت دے کر انہیں شام کے اندر دھکیلنے اور اس پورے علاقے کو آگ میں جھونکنے میں طیب اردگان کا اہم کردار ہے۔ شام میں اس نے ایک وقت میں کئی محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے ہمسایہ ملک یونان کے ساتھ ساتھ آذرباٸیجان کی حمایت میں اس نے آرمینیا کے خلاف بھی محاذ کھولے رکھا۔ لیبا اور عراق کے کرد علاقوں تک اس کی دراندازی دیکھی جا سکتی ہے۔ آج سے کچھ عرصے پہلے تک سیاسی منظر نامہ کچھ اسی قسم کا تھا۔ لیکن طیب اردگان کے دوبارہ صدر بننے کے بعد علاقے کا اب جو تقشہ ان کے سامنے رکھا جاٸے گا، وہ اس کے پرانے نقشے سے بالکل مختلف ہوگا۔
ناٸن الیون کی تخریب کاری کے بعد جو دنیا بدلی تھی، آج چاٸنا کی سفارتکاری نے اسے کسی اور انداز سے اس سے کہیں زیادہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ تبدیلی پہلی تبدیلی سے کہیں زیادہ جوہری ہے۔ اس تبدیلی نے اردگان کو پرانے خوابوں کی وادی سے نکال کر سپنوں کی ایک نئی دنیا میں لا کھڑا ہے۔ آج کی اس نئی بدلی ہوٸی دنیا کے دوست بھی اور ہیں اور دشمن بھی اور ہیں۔ کل تک سعودی عرب اور ایران جو اپنی دشمنی کو قیامت کی دیواروں تک لے جانے کے لیے کمربستہ تھے، آج وہ اپنے تعلقات کے نئے جنم پر ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ شام جسے عرب لیگ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا، آج اس کے استقبال کے لیے عرب حکومتیں سرخ قالین بچھا رہی ہیں۔ حال ہی میں ترکی، شام، روس، اور ایران کے وزرائے خارجہ کے مابین ماسکو میں ملاقات ہوٸی ہے، جو علاقے کی فضا میں ایک نئی طرز کی تبدیلی کا موجب بنے گی۔ طیب اردگان اگر ترکی کے صدر بن جاتے ہیں تو انہیں بھی سعودی عرب کی طرح علاقے میں ایک نیا مثبت کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔