جمعہ , 19 اپریل 2024

اب آگے کیا ہوگا؟

(ایف ایس اعجازالدین)

یہ وہ سوال ہے جو ہر باشعور پاکستانی پوچھ رہا ہے۔ ہم نے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا، اسی نقطے پر دوبارہ کھڑے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو خود ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

مارچ 2022ء میں سابق وزیراعظم پاکستان نے امریکی دفترِ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا۔ امریکی حکومت کے لیے ایک سخت بیان بھی جاری کیا گیا جسے انہوں نے نظرانداز کردیا۔ رواں ماہ انہی سابق وزیر اعظم کی ایک امریکی عہدیدار کے ساتھ بات جیت کی مبینہ آڈیو جاری ہوئی ہے جس میں وہ مبینہ طور پر امریکی کانگریس کی رکن میگزین واٹرز (ڈیموکریٹ) سے پاک فوج اور پاکستانی حکومت کے خلاف جاری موجودہ کشیدگی میں امریکا سے حمایت کی اپیل کر رہے ہیں۔

اپریل 2022ء میں پاکستان تحریک انصاف کے 123 ارکانِ قومی اسمبلی نے ’ہاتھ سے لکھ کر استعفے پیش کیے تھے‘۔ گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی جانب سے پی ٹی آئی کے کم از کم 53 قانون سازوں کے استعفے قبول کرنے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ان کے ڈی نوٹیفکیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ اب چاہتی ہے کہ اسپیکر ’ایک دفعہ پھر پی ٹی آئی ممبران سے بات چیت کریں اور پھر ان کے استعفوں کے حوالے سے فیصلہ کریں‘۔ اگر ان کے استعفوں کو مسترد کردیا جاتا ہے تو ان ارکانِ اسمبلی کو ایک بار پھر اسی پارلیمان میں واپس آنا ہوگا جہاں انہوں نے گزشتہ سال اپنے استعفے جمع کروائے تھے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات بھی دوبارہ وہیں آچکے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف پیکچ کی مطلوبہ قسط اب تک ہمیں موصول نہیں ہوئی ہے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے امداد ملنے کے باوجود پاکستان کی اقتصادی صورتحال ویسی ہی ہے جیسی ایک سال پہلے تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معیشت سال 2022ء میں 6 فیصد سے کم ہوکر اب 0.5 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔

امریکی پینٹاگون کو اس وقت اپنے پاکستانی ہم منصب پر کسی اور حملے کی فکر ہوگی۔ یہاں یہ یاد رہے کہ 10 اکتوبر 2009ء کو تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا۔ اس دوران بہت سے فوجیوں اور عام شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔ پاکستان آرمی کے ایلیٹ کمانڈوز، اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کو تمام عسکریت پسندوں کو مارنے یا زندہ پکڑنے اور تمام یرغمالیوں کو آزاد کروانے میں 20 گھنٹے سے زائد وقت لگا تھا۔

14 سال بعد 9 مئی 2023ء کو راولپنڈی میں اسی جی ایچ کیو کے گیٹ کو ایک منظم ہجوم نے توڑا۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ڈیفنس ہیڈ کوارٹرز کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز پر سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔

زیارت میں قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری چند ماہ گزارے، جون 2013ء میں زیارت میں قائد کے گھر کو بھی جلا دیا گیا تھا۔ 10 سال بعد لاہور میں قائداعظم کا وہ گھر جسے انہوں نے خریدا تو تھا لیکن وہ وہاں کبھی رہے نہیں، اسے ہجوم نے آگ لگا دی۔

پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پراکاشا کے مطابق محمد علی جناح ممبئی کے ماؤنٹ پلیسنٹ روڈ پر بنائے گئے اپنے گھر میں رہائش اختیار کرنا چاہتے تھے (شاید ریٹائر ہونے کے بعد)۔

انہوں نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو کو پیغام بھیجا کہ ’جواہرلال سے کہو کہ وہ میرا دل نہ توڑے۔ میں نے یہ گھر ایک ایک اینٹ اینٹ جوڑ کر بنایا ہے۔ ایسے گھر میں بھلا کون رہے گا؟ کیا عمدہ برآمدے؟۔۔۔ آپ نہیں جانتے کہ میں ممبئی سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ میں اب بھی وہاں واپس جانے کا منتظر ہوں‘۔

شکر ہے کہ قائداعظم ہماری پارلیمنٹ کی بدترین حالت نہیں دیکھ سکتے۔ اگر وہ ہوتے تو وہ اولیور کروم ویل کے پارلیمنٹ پر غصے کو بجا قرار دیتے۔ اپریل 1653ء میں اولیور کروم ویل کی قیادت میں مسلح فوج دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) میں داخل ہوئی اور اسے تحلیل کردیا۔ اس موقع پر اولیور کروم ویل نے کہا کہ ’آپ کافی وقت سے یہاں بیٹھے ہیں لیکن جو کام آپ کو کرنا چاہیے تھا آپ اس میں ناکام رہے۔۔۔ خدارا یہاں سے چلے جائیں‘۔

بہت سے لوگ جو ہماری موجودہ صورت حال کو دیکھ کر مایوس ہوچکے ہیں، وہ ہماری پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے لیے اولیور کرومویل جیسی کسی شخصیت کے منتظر ہیں۔ یہ سوچ ان کی خواہش ہے۔ ہماری تاریخ میں خاکی لباس میں جو بھی اولیور کرومویل آئے ہیں وہ اپنے پیش رو کا غیر مؤثر اور کمزور ورژن ثابت ہوئے ہیں۔

اور وہ ارکانِ پارلیمنٹ جو اپنے کیے پر بالکل بھی شرمندہ نہیں ہیں، انہیں آخر کہاں بھیجا جائے گا؟ ان کے پاس اپنے حلقوں کے علاوہ کوئی دوسری جگہ نہیں ہے جہاں پہنچ کر وہ سانپ کی طرح کھال بدل لیں گے۔

اگلے عام انتخابات کے حوالے سے پہلے سے ہی ایک متوقع صورت حال ہے۔ یہ بہت سے لوگوں کو 1977ء کے انتخابات کی یاد دلاتی ہے جب ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک یک طرفہ جیت کے لیے پُراعتماد تھے، انہیں جیت تو ملی لیکن پھر انہیں تختہ دار کی راہ دکھا دی گئی۔

تصور کریں کہ اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اپنے قائد کی توقعات پر پورا اترتی ہے اور جیت ان کی ہوتی ہے۔ اگر یہ دو تہائی سے زائد اکثریت کے ساتھ جیتی تو یوں انہیں یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس آئین میں تبدیلیاں کرسکیں گے جس کا فی الوقت انہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر سادہ اکثریت سے جیتے تو انہیں اپنے بدعنوان مخالفین کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اگر اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو شاید جو 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا اس کی تقلید کریں گے اور انتخابات کے نتائج مسترد کردیں گے۔یوں ہم ایک بار پھر نقطہِ آغاز پر موجود ہیں، ہم اپنے آپ کو خود ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔بشکریہ ڈان نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …