ہفتہ , 20 اپریل 2024

تحریک جہاد اسلامی فلسطین، زیاد النخالہ کی سربراہی میں کامیابی کی طرف گامزن

جہاد اسلامی کی کامیاب جہادی پالیسی نے اسرائیل کو پریشان کردیا ہے اسی لئے صہیونی حکومت تنظیم کے رہنماوں قتل کرنے کے علاوہ فلسطینی مقاومتی تنظیموں کے درمیان اختلافات پیدا کرکے جہاد اسلامی کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔

تحریک جہاد اسلامی کا نام لینے سے فلسطین میں متحرک حماس سے بھی چھوٹی تنظیم کا تصور ذہن میں آتا ہے، جو فلسطینی شہید کمانڈر فتحی شقاق اور رمضان عبداللہ کی یادگار اور ایران سے زیادہ نزدیک ہے۔ اس تنظیم کی تاریخ حماس سے زیادہ پرانی ہے لیکن سیاسی اور اجتماعی امور میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے منظر عام سے دور اور حماس سے کم موثر ثابت ہوئی ہے۔

اب وقت آیا ہے کہ اس تنظیم کے بارے میں دوبارہ غور کیا جائے۔ جہاد اسلامی ایک چھوٹی جہادی تنظیم ہے جو غزہ میں زیادہ شہرت کی حامل نہیں ہے۔ حالیہ ایام میں اس تنظیم کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ جہاد اسلامی مغربی کنارے میں فعالیت کے درپے ہے اسی وجہ سے صہیونی حکومت نے گذشتہ ایک سال سے اس تنظیم کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہے۔

صہیونی افواج کی جانب سے اس تنظیم کو ہدف بنانے کی ایک وجہ تنظیم کا مغربی کنارے بالخصوص جنین میں فعال ہونا ہے۔ جہاد اسلامی کی ذیلی شاخیں مغربی کنارے اور شمال میں مقاومت کو فروغ دینا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے صہیونی تشویش کا شکار ہیں۔ مبصرین کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ تحریک جہاد اسلامی حماس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ حماس نے حالیہ سالوں کے دوران حملوں کی شدت کم کردی ہے۔ تنظیم کے مطابق کشیدگی میں اضافے اور صہیونی افواج کو آگ سے کھیلنے کا موقع فراہم کرنے سے غزہ کی دفاعی طاقت کمزور ہورہی ہے۔

علاوہ ازین غزہ کی معاشی صورتحال، مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو کام کی اجازت نہ دینا، غربت میں اضافہ اور حالیہ جنگوں کے بعد غزہ میں تعمیر نو کے کاموں میں تاخیر کے باعث حماس کسی قسم کی کشیدگی ایجاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کے مقابلے تحریک جہاد اسلامی زیادہ شدت کے ساتھ اپنی ذیلی شاخوں کے ذریعے جنین اور نابلوس جیسے علاقوں میں فعالیت کرتی ہے۔ صہیونیوں کی کاروائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاد اسلامی کی پالیسی زیادہ کامیاب نظر آتی ہے۔

تحریک جہاد اسلامی فلسطین کو غزہ سے باہر فعال کرنے میں زیاد النخالہ کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 2018 میں رمضان عبداللہ کے انتقال کے بعد ان کو تنظیم کی قیادت ملی۔ البتہ تنظیم نے 2014 کی 51 روزہ جنگ کے بعد پیشرفت کرنا شروع کیا تھا۔ فجر 7 میزائل کو تل ابیب پر تحریک جہاد اسلامی نے ہی فائر کیا تھا۔ زیاد النخالہ کی کئی دہائیوں پر مشتمل فعالیت کے باعث امریکہ نے ان کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر رکھا تھا۔ ان سے پہلے امریکہ کی طرف سے جاری دہشت گردوں کی فہرست میں صرف رمضان عبداللہ کا نام تھا۔

زیاد النخالہ نے صہیونی جیلوں میں چودہ سال گزارے ہیں۔ جیل کی زندگی کے دوران انہوں نے فلسطینی قیدیوں کو جمع کرکے جماعت اسلامی کے نام سے تنظیم تشکیل دی اس لحاظ سے ان کو جیل میں فلسطینی تنظیم بنانے والے ابتدائی رہنما کہا جاسکتا ہے۔ جہاد اسلامی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔

زیاد النخالہ کی دوسری خصوصیت ان کا دوسری تنظیموں اور بیرون ممالک سے موثر رابطہ ہے۔ لبنان میں انہوں نے متعدد رہنماوں سے ملاقات کی اس کے علاوہ اسلامی ممالک میں ان کو خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 1995 میں فتحی شقاقی کی شہادت اور رمضان عبداللہ کے سربراہ بننے کے بعد ان کو معاون بنایا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک فلسطینی تنظیموں اور بیرونی ممالک سے رابطوں میں انہوں نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ تین دہائیوں تک لبنان میں رہنے کی وجہ سے لبنانی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ بھی ان کے مستحکم روابط ہیں۔

زیاد النخالہ کی قیادت میں جہاد اسلامی صہیونیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں نئی کامیابیوں کی تلاش میں ہے۔ چنانچہ حالیہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی کئی مرتبہ اشارہ کیا گیا، جہاد اسلامی مغربی کنارے میں صہیونی جارحیت اور مخصوصا جنین میں تنظیم کے اراکین پر حملوں اور گرفتاریوں کے جواب میں مقاومت کے لئے فضا سازگار کرنے کی تلاش میں ہے۔ لبنان میں جہاد اسلامی کے نمائندے نے کہا ہے کہ تنظیم کے سربراہ کی پالیسی کے مطابق صہیونیوں کی جانب سے مقاومتی جوانوں کو نشانہ بنانے کی صورت میں تل ابیب کو دندان شکن جواب دیا جائے گا۔

صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ کے مختلف میدانوں کا باہمی انضمام تحریک جہاد اسلامی کے لئے مثبت خصوصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2022 اور 2023 میں صہیونی حکومت کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران صہیونیوں کا زیادہ جانی نقصان ہوا یہ دلیل ہے کہ مغربی کنارے اور جنین اور نابلوس میں جہاد اسلامی کی پالیسی کامیاب رہی ہے۔ تنظیم کی ان کامیابیوں نے صہیونیوں کو کافی پریشان کردیا ہے۔ اسرائیل مختلف طریقوں سے تنظیم کو روکنے کی کوشش کررہا ہے جس میں تنظیم کے رہنماوں کا قتل، غزہ پر حملے اور حماس اور جہاد اسلامی کے درمیان اختلافات پیدا کرنا قابل ذکر ہیں۔

شہید فتحی شقاقی کی یادگار تنظیم کو مغربی کنارے اور غزہ میں اپنی طاقت کو محفوظ رکھتے ہوئے فلسطینی اور لبنانی مقاومت کے ساتھ مل کر اپنی دفاعی طاقت کو مزید بڑھانا چاہئے۔ ہوشیاری اور عقل مندی سے کام لیں تو منزل دور نہیں ہے۔بشکریہ مہر نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …