پیر , 2 اکتوبر 2023

ترکی کے انتخابات: صدر اردوغان اور ان کے حریف میں آخری چند گھنٹوں میں سخت مقابلہ

(پال کربی)

ترکی کے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے قبل کے آخری چند گھنٹے مزید سخت مقابلے میں تبدیل ہو گئے ہیں اور رجب طیب اردوغان اپنے 20 سالہ اقتدار میں میں مزید پانچ سال کی توسیع کے قریب ہیں۔

اتوار کو ترک صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے قبل حزب اختلاف کے حریف کمال قلیچ دار اوغلو نے لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا عزم کر کے قوم پرست ووٹوں کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔

ترک صدر رجب اردوغان نے ان پر نفرت آمیز تقریر کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ قلیچ داراوغلو کی فتح دہشت گردوں کی جیت ہو گی۔اپوزیشن امیدوار قلیچ داراوغلو صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں 25 لاکھ ووٹوں سے پیچھے تھے۔

اگرچہ صدر اردوغان پسندیدہ رہنما ثابت ہوئے ہیں لیکن ان کے حریف کا خیال ہے کہ ووٹوں کے اس فرق کو اب بھی کم کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے یا تو تیسرے نمبر پر آنے والے انتہائی قوم پرست امیدوار کے 28 لاکھ حامی ووٹوں کے ذریعے یا ان 80 لاکھ ووٹرز کے ذریعے جو پہلے راؤنڈ میں ووٹ ڈالنے نہیں آئے تھے۔

رواں ہفتے کمال قلیچ داراوغلو نے بابالا ٹی وی نامی یوٹیوب چینل پر چار گھنٹے تک سامعین کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس لائیو براڈ کاسٹ کو 24 ملین ویوز ملے تھے جبکہ ترکی کی کل آبادی 85 ملین کے قریب ہے۔

ان کی صدارتی مہم کے لیے نوجوان کمپیئنر مہتیپ کا خیال ہے کہ یوٹیوب میراتھن یہ کام کر سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’با با لا ٹی وی پر ہونے سے بہت سے نوجوان ووٹرز متاثر ہوئے جنھوں نے پہلی بار ووٹ نہیں دیا تھا۔‘

وہ سنٹر رائٹ، نیشنلسٹ گڈ پارٹی کی رکن ہیں جو اپوزیشن رہنما کمال قلیچ کی حمایت کرتی ہیں۔ اور میرل اکسینر میں ترک سیاست میں واحد خاتون رہنما ہیں۔

یوٹیوب چینل کے ذریعے عوام سے خطاب کرنا ایک ایسے امیدوار کے لیے بہت اچھا اقدام تھا جو تقریباً 90 فیصد ترک میڈیا کو کنٹرول کرنے والے اپنے حریف پر سبقت لینے کی کی کوشش کر رہے تھے۔

بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ رائے دہندگان حقیقی انتخاب کر سکتے ہیں لیکن ترکی نے ’جمہوری انتخابات کے انعقاد کے بنیادی اصولوں کو پورا نہیں کیا۔‘

صدر اردوغان نے گزشتہ چھ برسوں میں نہ صرف بڑے پیمانے پر اختیار حاصل کیا ہے بلکہ انھوں نے اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا ہے۔

اردوغان کی انتخابات میں فتح اور مزید معاشی عدم استحکام کی توقع کرتے ہوئے، مالیاتی منڈیوں میں جمعے کو ترک لیرا ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گیا ہے۔ ملک میں غیر ملکی کرنسی کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے اور سنٹرل بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر سنہ 2002 کے بعد پہلی بار منفی سطح پر آ گئے ہیں۔

انقرہ کے جنوب مشرق میں ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع بالا قصبے میں یہ زیادہ تشویش کا باعث نہیں ہو گا۔ کیونکہ دو ہفتے قبل یہاں کے تقریباً 60 فیصد ووٹرز نے صدر اردوغان کی حمایت کی تھی۔ اگرچہ یہاں تمام دیگر مرکزی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں۔

صدر اردوغان کے پارٹی ہیڈ کوارٹر کے سامنے سڑک کے اس پار، ڈونر کباب کی دکان کے مالک ال اوزدیمیر کا کہنا ہے کہ وہ صدر اردوغان کی مزید پانچ سالہ حکومت کے لیے ووٹ دیں گے۔

لیکن ایک اور دکاندار نے بی بی سی کو یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ وہ کس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ انھیں اردوغان کے حامیوں کو بطور گاہک کھونے کا خدشہ تھا۔

اگرچہ کئی مہینوں سے انتخابی مہم میں ترکی کی مشکلات کا شکار معیشت پہلے نمبر کا مسئلہ تھا، لیکن جیسے جیسے اتوار کا دوسرا مرحلہ قریب آ رہا ہے، مہاجرین سے متعلق سیاسی بیان بازی میں شدت آ گئی ہے۔

74 سالہ اپوزیشن لیڈر کے اب اپنے ہاتھوں سے دل کی شکل بناتے ہوئے ووٹرز کو متوجہ کرنے کے دن چلے گئے۔ اب وہ ان ووٹرز کو اپنے طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے دو ہفتوں قبل الٹرا نیشنلسٹ سنان اوگن کی حمایت کی تھی۔

اگرچہ صدر اردوغان کو اوگن کی حمایت حاصل ہے لیکن اپوزیشن رہنما کمال قلیچ نے مہاجرین کی مخالف جماعت وکٹر پارٹی کی حمایت حاصل کر لی ہے اور جس کہ 12 لاکھ ووٹ ہیں۔

وکٹری پارٹی کے رہنما نے کہا کہ اس ہفتے کمال قلیچ دار اوغلو نے ’بین الاقوامی قانون کے مطابق‘ ایک سال کے اندر ’13 ملین تارکین وطن‘ کو واپس بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔

ترکی کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے لیکن وہ یہ تعداد نہیں ہے۔

پروفیسر مرات اردوغان (صدر اردوغان سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے)، جو سیرین بیرومیٹر کے نام سے ایک باقاعدہ فیلڈ سٹڈی کرتے ہیں کا خیال ہے کہ ایران، عراق، افغانستان اور پاکستان سے شامی پناہ گزینوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی کل تعداد چھ یا سات ملین کے قریب ہے۔

پروفیسر مرات اردوغان کہتے ہیں کہ ’ان کی گفتگو حقیقت پسندانہ نہیں ہے، زمینی حقائق میں یہ ناممکن ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم رضاکارانہ طور پر (وطن واپسی) کے بارے میں بات کرتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے، اور زبردستی اس کا مطلب ہے کہ روزانہ 50,000 سے زیادہ مہاجرین واپس بھیجے جائیں گے۔‘

یہ سیاسی بیانیہ زیادہ پسند نہیں کیا جاتا لیکن اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 85 فیصد ترک یہ چاہتے ہیں کہ شامی پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔

کوک یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات نزیہ اونور کورو کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کے پاس قوم پرست جماعتیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، اور کمال قلیچ دار اوغلو بہت سے ووٹروں، خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے محسوس کیے جانے والے سیکورٹی خدشات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ جانتے ہیں کہ تارکین وطن کے بحران اور دہشت گرد حملوں اور روس، شام اور آذربائیجان کی جنگوں کی وجہ سے عوام اس بارے میں بہت زیادہ خطرہ محسوس کرتی ہے۔‘بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

کینیڈا پاکستان ہے کیا؟

(نعیمہ احمد مہجور) سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کی کینیڈا میں پر اسرار قتل کے …