جمعرات , 25 اپریل 2024

عمران خان کے پاس کیا راستہ ہے؟؟؟؟

(محمد اکرم چوہدری)

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مشکل میں ہیں ان کی سیاسی زندگی میں ایسا مشکل وقت کبھی نہیں آیا بلکہ ان کی سیاسی زندگی میں کبھی مشکل وقت آیا ہی نہیں تھا۔ وہ لاڈلے تو ہمیشہ سے تھے، پہلے اپنے چاہنے والوں کے لاڈلے تھے پھر وقت گذرتا گیا اور وہ کسی اور کے بھی لاڈلے بنتے گئے۔ اس دوران ان کے چاہنے والوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ اپنے ووٹرز کی ریڈ لائن قرار پائے۔ عمران خان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بہت زیادہ کامیابی کے ساتھ حکومت نہ کرنے کے باوجود عوام میں مقبول ہوئے، مخالفین کی کرپشن کو بے نقاب کرنے اور اپنے ساتھیوں کی کرپشن پر آنکھیں بند کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اپنی ہر ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے اور سارے جہان کی کامیابیوں کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کا فن کوئی عمران خان سے سیکھے۔ بہرحال جہاں تک تعلق مشکل وقت کا ہے تو یہ پہلا موقع ہے کہ وہ ایسے مشکل دور سے گذر رہے ہیں ورنہ وہ ہمیشہ ہی مقبول سیاست کرتے رہے ہیں۔ ان کی پرتعیش زندگی کو کبھی فرق نہیں پڑا۔ کارکن لاٹھیاں کھاتے اور موسموں کی سختیاں برداشت کرتے رہتے لیکن اپنے لاڈلے لیڈر سے کبھی عام آدمی جیسی زندگی کا تقاضا نہیں کیا۔ یوں وہ لوگوں کو برا بھلا کہتے، پگڑیاں اچھالتے اور الزامات لگاتے لگاتے ایوان وزیراعظم پہنچ گئے۔ لگ بھگ ساڑھے تین سال بعد وہاں سے نکلے تو الزامات لگاتے لگاتے ہی نکل گئے۔ اس کے بعد سڑکوں، جلسوں اور ٹیلیویژن پر جو کچھ ہوا ہے وہ سب نے دیکھا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یوں یہ کہا جائے کہ وہ سیاست کرتے ہوئے ہمیشہ آسائشوں میں رہے، امراء میں گھومتے رہے اور ان کی امارت کو نشانہ بنا کر وسائل سے محروم افراد میں نفرت کے جذبات بھڑکاتے رہے اور اس حکمت عملی میں وہ کامیاب رہے۔ موجودہ دور میں انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھایا اور وسائل سے محروم افراد کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے میں کامیاب رہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت ہی تھی کہ عمران خان کو ریڈ لائن بھی قرار دیا گیا۔ آج اگر تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی سوشل میڈیا مہم میں امپورٹڈ مشاورت شامل ہے۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والے ممالک یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ کم آمدن والے افراد کو مالدار کے خلاف کیسے بھڑکانا ہے، وسائل سے محروم افراد میں نفرت کیسے پیدا کرنی ہے، کمزور کو کیسے طاقتور کے سامنے لانا ہے۔ یہ سارے کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ پھیلایا گیا اور ہمیں ایک مرتبہ 1971 والے حالات میں دھکیلنے کی کوشش ہوئی ہے لیکن اس مرتبہ دفاعی اداروں اور سیاست دانوں نے بہتر ردعمل سے دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا ہے۔

عمران خان کے ماننے والے جھوٹے بیانیے کا شکار ہوئے اور جانے انجانے میں عمران خان بھی غلط فہمی کا شکار ہو کر آج اپنی جماعت کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ طاقتور حلقوں کی طاقت کے زور پر سیاست کرنے اور حکومت میں آنے والے عمران خان یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کسی بھی طرح کے جھوٹے بیانیے سے لوگوں کو بھڑکاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئیں گے اور سب کو زیر کر لیں گے۔ دفاعی اداروں پر حملہ یا عوام کو ان کے خلاف بھڑکانا تو بیرونی حکمت عملی تھی یوں اپنے لوگوں کو بے وقوف بناتے بناتے خود عمران خان وہ غلطی کر گئے جو ان کے ماننے والوں نے کی۔ ان کا دماغ بند ہو چکا ہے اور وہ ابھی تک اس زعم میں ہیں کہ پلک جھپکنے میں سب کچھ بدلنے والا ہے وہ آج بھی جھوٹ بولتے ہوئے اس مشکل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کے ساتھ دوران حراست زیادتی یا نامناسب رویے کا جھوٹا بیانیہ مجھے 1971کے واقعات کی یاد دلاتا ہے۔ کیا اس وقت سب کچھ بیرونی ایجنڈے کے تحت نہیں ہوا تھا بالکل ہوا تھا اور آج بھی ہمارا دشمن وہی کر رہا ہے۔ حساس معاملات میں جھوٹ پھیلاتے ہوئے نفرتوں کی خلیج حائل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور عمران خان اس جھوٹے قبیلے کی قیادت کر رہے ہیں۔ گرفتاریوں کے حوالے سے غلط معلومات عوام تک پہنچا رہے ہیں اور پھر ٹویٹ ڈیلیٹ بھی کر رہے ہیں۔ یعنی وہ ابھی تک غلطیاں کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین سے بدسلوکی سے متعلق پراپیگنڈا کیا جاری ہے،جیل میں قید خواتین کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کر رہے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے جیل میں خواتین پر تشدد کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن انوش مسعود پر مشتمل دو رکنی کمیٹی بنائی تھی۔ تحقیقاتی کمیٹی نے کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کیا اور جیل میں قید خواتین سے ملاقات کے بعد ایس ایس پی انوش مسعود کا کہنا تھا کہ "جیلوں میں خواتین سے بدسلوکی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، خواتین سے پوچھا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں، ایک ایک کر کے ہر خاتون سے بات ہوئی، یہ سب افواہیں ہیں جو خواتین سے متعلق پھیلائی جا رہی ہیں۔”

اگر عمران خان خود کو ریڈ لائن سمجھ رہے تھے اور یہ طاقت ان کے پاس تھی تو پھر سب سے پہلی ذمہ داری یہی تھی کہ وہ دوسروں کی ریڈ لائن کا احترام کریں۔ بنیادی طور پر تو یہ خیال اور حکمت عملی ہی غلط ہے۔ کیونکہ ریاست میں قانون توڑنے پر سب کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کسی شخص کو ریڈ لائن قرار دینا غلط ہے۔ چلیں مقبولیت کے نشے میں اگر یہ غلطی ہو بھی جائے تو اس کے بعد دوسروں کی ریڈ لائن کا احترام سب سے زیادہ اہم ہے۔ مقبولیت کے نشے میں عمران خان یہ احترام بھلا بیٹھے اور آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے قریبی ساتھی بھی جماعت چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ خود کو ناقابل تسخیر اور آخری امید، واحد امید کی خیالی دنیا سے باہر نکلتے تو یقینا مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ریاستی اداروں کے خلاف کھڑے نہ ہوتے لیکن اقتدار کی ہوس اور سامنے کھڑے افراد کو ہر حال میں نیچا دکھانے کے منفی جذبات نے انہیں اس جگہ لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں ان کے پاس واپسی کا سفر مشکل تر ہو چکا ہے۔

عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے اس کمیٹی کو حکومت مسترد کر چکی ہے۔ چند ہفتے قبل مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان عمران خان نے کیا تھا اب حکومت مذاکرات سے انکار کر رہی ہے۔ یوں سیاست میں ایسا وقت آتا رہتا ہے۔ عمران خان مذاکرات کی ٹرین مس کر چکے ہیں۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ "جناح ہاؤس میں صرف دلخراش واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ یہ سانحہ ہے۔ یہاں قائد اعظم کی بہت سی چیزیں موجود تھیں، ظالموں نے ہر چیز کوجلا دیا، کوئی شرم نہیں کی گئی، جناح ہاؤس کے تقدس کوپامال کیا گیا۔ہمارا بھی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف رہا، کبھی فوجی تنصیب کے سامنے احتجاج کا خیال بھی نہیں آیا، مشرف دور میں روز احتجاج کرتے تھے مگر کنٹونمنٹس کی اہمیت و حیثیت کا خیال رکھتے تھے، 9 مئی کو پی ٹی آئی کی قیادت جناح ہاؤس کے باہر اور ٹکٹ ہولڈرز اندر تھے، جناح ہاؤس میں آگ پیٹرول یا ماچس سے نہیں بلکہ کیمیکل سے لگائی گئی تھی۔”

اب عمران خان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور یہ راستہ پہلے بھی موجود تھا لیکن انہوں نے درست راستے پر چلنے کے بجائے ریاست کو بلیک میل کرنے اور بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کو ترجیح دی۔ مقدمات کا سامنا کرنے، خود کو عدالت میں بے گناہ ثابت کرنے اور سیاسی مخالفین کا سیاسی انداز میں سامنا اور مقابلہ ہی سب سے بہتر اور محفوظ راستہ ہے۔ ریاستی اداروں کو متنازع بنانے اور اپنا دشمن سمجھنے کی حکمت عملی ترک کرتے ہوئے، غلط بیانی ترک کرتے ہوئے، سچ عوام کو بتانے کی عادت اپنانا ہو گی۔ لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے بجائے انہیں حقیقت کی دنیا میں رہنے اور قابل عمل بیانات جاری کرنے کا طریقہ اپنانا ہو گا۔ ان سب سے پہلے انہیں خود کو قانون کے حوالے کرنا ہو گا۔بشکریہ نوائے وقت

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …