جمعہ , 19 اپریل 2024

لائٹ، کیمرہ،ایکشن، چلیں جی شروع ہو جائیں

(شہزاد ملک)

” نو مئی کے واقعہ کے بعد میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، پاک فوج جس کی وجہ سے ہم راتوں کو سکون سے سوتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے کچھ شرپسندوں نے جی ایچ کیو اور لاہور کے کورکمانڈر ہاوس پر حملہ کرنے کے علاوہ فوجیوں کے ان مجسموں کی بےحرمتی کی گئی جنہوں نے ملک کے لیے جانیں قربان کیں تو ایسے حالات میں عمران خان اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے میں اج سے پی ٹی آئی سے الگ ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور اس حوالے سے ان پر کوئی دباو نہیں ہے ”۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پی ٹی آئی کے دو درجن سے زائد سابق ارکان صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز مختلف اوقات میں پریس کانفرنس کی ہیں جس میں ایک ہی قسم کے الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں جس میں یہ افراد پہلے سیاست اور پھر پی ٹی آئی سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہیں۔ بعض پریس کانفرنس کرنے والوں نے سیاست سے الگ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن صرف یہ کہا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کچھ عرصے کے بعد کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف نے سابق سیکرٹری جنرل اسد عمر کی واحد پریس کانفرنس تھی جس میں انھوں نے اپنی پارٹی کے عہدوں سے تو مستعفی ہونے کا اعلان کیا لیکن انھوں نے نہ تو سیاست اور نہ ہی پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا۔

نو مئی کے واقعہ کے بعد پی ٹی ائی کے رہنماوں کی طرف سے اپنی سیاسی جماعت چھوڑنے کے اعلان کے لیے جتنا استعمال نیشنل پریس کلب کا ہوا ہے اتنا ملک میں کسی اور پریس کلب کا نہیں ہوا چاہیے پارٹی چھوڑنے والوں کا تعلق صوبہ پنجاب یا خیبر پختون خوا سے ہی کیوں نہ ہو۔

نیشنل پریس کلب میں اب تک30 پریس کانفرنسز ہوچکی ہیں جس میں پی ٹی آئی سے وابسطہ لوگ پارٹی سے علحیدگی کا اعلان کرتے ہیں ان میں سینیٹر سیف اللہ نیازی، ملائیکہ بخاری، فیاض چوہان مسرت جمشید چیمہ اور دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔

نیشنل پریس کلب کے ریکارڈ کے مطابق پریس کانفرنس کا سب سے کم دورانیہ سابق سینٹر سیف اللہ نیازی کی پریس کانفرنس کا تھا جو کہ صرف باون سیکنڈ پر مشتمل تھا جبکہ اب تک سب سے لمبی پریس کانفرنس کا دورانیہ ایک گھنٹہ دس منٹ ہے جو کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما فیاض الاحسن چوہان نے کی تھی۔

نیشنل پریس کلب میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان کی اپنی جماعت سے لاتعلقی کے اعلان سے متعلق اتنی زیادہ پریس کانفرنسز ہو چکی ہیں کہ ان پریس کانفرسز کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو یہاں تک یاد ہوگیا ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والہ اگلا فقرہ کیا بولنے جارہا ہے۔

ایسے ہی صحافیوں میں ایک مقامی صحافی مدثر چوہدری بھی شامل ہیں جنھوں نے اس بارے میں متعدد پریس کانفرسز کور کی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی رہنماوں نے نیشنل پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کی ہے ان کے پاس کوئی لکھا ہوا مواد نہیں ہوتا تھا بلکہ پریس کلب کی انتظامیہ کی طرف سے انھیں سادہ کاغذ فراہم کیے جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی پی ٹی ائی کے رہنماوں نے پریس کانفرنس کی ہے ان میں سے اکثریت اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے بعد نیشنل پریس کلب میں آتے تھے۔

مدثر چوہدری کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل سے پریس کلب آنے تک اگر کوئی انھیں راستے میں پریس کانفرنس میں بولنے کا سکرپٹ یاد کرواتا ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن پریس کانفرنس کے دوران کسی نے انھیں سکرپٹ نہیں دیا۔

انھوں نے کہا کہ یا اتفاقیہ امر ہے یا پھر اڈیالہ جیل سے نیشنل پریس کلب تک آتے ہوئے کوئی پریس کانفرنس کرنے والے کو سکرپٹ یاد کرواتا ہے کہ ہر پریس کانفرنس کرنے والہ اپنی پریس کانفرنس کا آغاز نومئی والے واقعہ سے کرتا تھا اور پھر اس کی مذمت اور آخر میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا جاتا تھا۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما کنیز فاطمہ جب پریس کانفرنس کر رہی تھیں اور جب انہوں نے یہ الفاظ کہے کہ ان پر پی ٹی آئی چھوڑنے کا کوئی دباو نہیں ہے تو پریس کانفرنس میں موجود مقامی صحافی نے جواب میں کہا کہ ” جی یہ ہمیں یاد ہو گیا ہے” جس پر کانفرنس ہال میں قہقہ بلند ہوا۔

مقامی صحافی نے کنیز فاطمہ سے استفسار کیا کہ کیا انھیں ایک جیسا ہی سکرپٹ دیا جاتا ہے کہ جائیں اور جاکر پڑھ دیں۔ صحافی نے پھر استفسار کیا کہ کہیں اس میں اپنے طور پر بھی اس میں کسی سپیلنگ کا اضافہ کرلیا کریں۔

صحافی نے اس سوال کے جواب میں کنیز فاطمہ کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی سکرپٹ نہیں دیا گیا بس وہ سیاست سے بریک لینا چاہتی ہیں اور اس کے بعد وہ پریس کانفرنس ختم کرکے چلی گئیں۔

پریس کانفرنس کے انعقاد کا کیا طریقہ کار ہے؟
نیشنل پریس کلب کے سیکرٹری خلیل راجہ کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک دن پہلے بکنگ کروانا پڑتی ہے کیونکہ پریس کانفرنس کس بارے میں کی جارہی ہے اس کا ایک دعوت نامہ تیار کرکے مقامی میڈیا کو بھجوایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرنے کا ریٹ35 ہزار روپے ہے جو کہ پریس کانفرنس کرنے والے کو یکمشت یا کچھ رقم ایڈوانس میں دینے کے بعد باقی رقم پریس کانفرنس کے ختم ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔خلیل راجہ کا کہنا تھا کہ اس رقم میں صحافیوں اور پریس کانفرنس کرنے والوں کو ریفرشمنٹ دی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جو کوئی بھی نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کا خواہشمند ہو تو پہلے اس سے اس پریس کانفرنس کا مقصد پوچھا جاتا ہے۔

خلیل راجہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص جو پاکستانی ہے اور ملک کے کسی بھی حصے میں رہائش پذیر ہے وہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کا مجاذ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ملک کی سالمیت کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …