منگل , 23 اپریل 2024

کیا جعلی صہیونی ریاست ایران پر حملہ کرسکے گی؟

(بقلم: سعید محمد)

صہیونی ذرائع نے کچھ عرصے سے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بیرونی تنازعات میں شدت لانے کے لئے اقدامات پر تشہیری مہم کا آغاز کیا ہے، یہاں تک کہ آئی-12 ٹی وی چینل نے ـ امریکہ کی حمایت یا عدم حمایت کی صورت میں ـ بزعم خود، ایران کی جوہری تنصیبات اسرائیلی حملے کے منظرنامے کا جائزہ لیا ہے۔ اس منظرنامے میں اس حملے کی تفصیلات اور اس کے لئے مناسب وقت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

صہیونی ذرائع نے کچھ عرصے سے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بیرونی تنازعات میں شدت لانے کے لئے اقدامات پر تشہیری مہم کا آغاز کیا ہے، یہاں تک کہ آئی-12 ٹی وی چینل نے ـ امریکہ کی حمایت یا عدم حمایت کی صورت میں ـ بزعم خود، ایران کی جوہری تنصیبات اسرائیلی حملے کے منظرنامے کا جائزہ لیا ہے۔ اس منظرنامے میں اس حملے کی تفصیلات اور اس کے لئے مناسب وقت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
غاصب یہودی ریاست کی طرف سے ایران کے جنگ کی دھمکیاں کبھی کبھی زور پکڑتی ہیں، جو عام طور پر اندرونی مشکلات میں شدت آنے کے بعد، منظر عام پر آتی ہیں۔ ان دنوں بھی اندرونی تنازعات اور نیتن یاہو کے خلاف صہیونیوں کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، غزہ میں حرکۃ الجہاد الاسلامی پر “ناکام حملے” بھی اندرونی تنازعات میں کمی آنے کا سبب نہیں بن سکے ہیں، چنانچہ صہیونیوں نے اب شیخیوں کا دامن وسیع تر کر دیا ہے۔ یہ سلسلہ البتہ تقریبا دو سال قبل شروع ہؤا تھا۔

اسی وقت تل ابیب کی جعلی ریاست کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے اعلان کیا تھا کہ “اسرائیل، مغرب اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات میں پیشرفت کے باوجود، ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں پر حملہ کرے گا”، اور اسی وقت سابق وزیر جنگ بینی گانٹز نے دعویٰ کیا تھا کہ “اسرائیلی فوج نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لئے اپنا منصوبہ اپڈیٹ کر دیا ہے اور حملے کے لئے تیار ہے”۔

اسی اثناء میں یہودی فوج کے چیف آف اسٹاف آویو کوخاوی (Aviv Kochavi) نے اعلان کہ “ہماری فوج نے ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کا انتظام کر لیا ہے اور اس اقدام کے لئے مختص کردہ بجٹ نے مختلف النوع اقدامات کا امکان فراہم کر دیا ہے!”۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اُس وقت کی صہیونی دھمکیاں ایسے وقت سامنے آ رہی تھیں کہ دوسری طرف سے جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لئے ہونے والے مذاکرات کی خبریں بھی مسلسل آ رہی تھیں؛ چنانچہ ان دھمکیوں کا فلسفہ کسی حد تک عیاں ہؤا تھا۔

بہرحال، ایران کے لئے صہیونیوں کی اس قسم کی دھمکیاں روز کا معمول بن چکی ہیں، اور جب بھی کوئی عالمی اور علاقائی سطح پر کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے، جس کی وجہ سے صہیونی ریاست نے دیکھا ہے کہ اس کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے، یہ ریاست زدپذیر ہو چکی ہے یا اسے تنہا ہونے کا خطرہ ہے، تو اس نے دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے اُس زمانے میں صہیونیوں کی کھوکھلی دھمکیوں پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا، کیونکہ ان کا کھوکھلا پن بالکل عیاں تھا اور معلوم تھا کہ ان دھمکیوں کا مقصد مغرب کی حمایت حاصل کرنا تھا اور ان حملوں کا رخ در حقیقت واشنگٹن کی طرف تھا، یا پھر صہیونیوں کے اندرونی تنازعات سے چھٹکارا پانا تھا؛ لیکن ان دھمکیوں پر اندرونی غاصب ریاست کے اندر سے جو رد عمل سامنے آیا وہ بہت دلچسپ تھا۔

سابق صہیونی وزیر اعظم ایہود اولمرت نے سنہ 2021ع‍ میں، عبرانی اخبار “معاریو” کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ “صہیونی ریاست کبھی بھی ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر حملہ نہیں کرے گی۔۔۔ اور جو راستہ نفتالی بینٹ نے اختیار کیا ہے وہ کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ سابق حکومت (نیتن یاہو کی کابینہ) کی پالیسیوں کے مقابلے میں، عاجز نہیں آئے گی اور اس سے بڑھ کر کام کرے گی!”۔

اولمرٹ نے اس انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ “مجھے یقین ہے کہ گذشتہ 10 سال سے اب تک، ایران پر [مبینہ] حملے کے لئے اربوں ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا اور یہ اقدام صرف اربوں ڈالر ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ جو کام سرے سے ممکن ہی نہیں ہے، اس کے لئے پیسہ ضائع نہ کرو، میں جانتا ہوں کہ اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ نہیں کرتا، اور یہ تمام جنگی مشقوں اور غل غپاڑون کا مقصد صرف اور صرف امریکی حکومت کو خوفزدہ کرنا ہے”۔

اس ریاست کی نئی دھمکیاں بھی ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں کہ خطے میں نئی تبدیلیاں آئی ہیں جو اس ریاست کے عزائم اور اہداف و مقاصد سے متصادم ہیں؛ جن میں ایران- سعودی سمجھوتہ، تعلقات کی بحالی کے لئے ایرانی اور مصری نمائندوں کے مذاکرات، شام کی عرب لیگ میں واپسی، یمن اور سعودی اتحاد کے درمیان ظاہر ہونے والے مصالحت کے امکانات، مجدو کے علاقے میں فلسطینیوں کی شہادت طلبانہ کاروائی، “انتقام الاحرار” نامی فلسطینی کاروائی کے بعد صہیونیوں کی تسدیدی صلاحیت کے ختم ہو جانا، جنوبی لبنان کی آزادی کی سالگرہ کے موقع پر حزب اللہ لبنان کی وسیع پیمانے پر جنگی مشقیں، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں مقاومتی تنظیموں کی ظہور پذیری، ـ جس نے صہیونیوں کو حقیقی معنوں میں خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے، ـ فلسطینی مقاومتی تحریکوں اور تنظیموں کے درمیان اتحاد اور آخرکار امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کی مخالفت، ان نئی تبدیلیوں میں شامل ہیں۔

صہیونی ہفتہ نامے “ماکور ریشون” (Makor Rishon) نے اپنے اداریئے کو یہ عنوان دیا ہے کہ “کیا اسرائیل جنگ کے لئے تیار ہے؟، اور لکھا ہے کہ “ایران کو ایک علاقائی بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور چین اور روس کے ساتھ اس کا اتحاد اور بعض عرب ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات، اسرائیل کے لئے باعث تشویش ہیں۔۔۔ اسرائیل ایران پر حملے کے لئے تیار نہیں ہے اور اس نے محض اپنے آپ کو زرد اخبارات و جرائد میں الجھا دیا ہے”۔

“جو منظر نامہ اسرائیلی اخبارات اور ذرائع نے ایران پر حملے کے لئے لکھا ہے، اس میں حملے کی تمام اجزآء کی طرف اشارہ ہؤا ہے لیکن اس میں ایران کے رد عمل کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہؤا! اس قسم کے کسی حملے پر ایران کا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا ایران پر حملہ کرنے والے اسرائیلی طیارے صحیح و سالم واپس آ سکیں گے؟ اور اگے صحیح و سالم لوٹیں بھی تو کیا مقبوضہ فلسطین میں کوئی ہوائی اڈہ باقی ہوگا جس میں یہ طیارے اترسکیں؟ کیا تل ابیب اور حیفا جیسے صہیونی شہر باقی رہ سکیں گے”۔

بڑا سوال یہ ہے کہ اگر صہیونی حکام ایران پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ اسے پہلے سے فاش کیوں کرتے ہیں؟ اس حملے کی تفصیلات اور نقشوں کو کیوں فاش کرتے ہیں؟

واضح ہے کہ یہ تمام دھمکیاں اس لئے دی جا رہی ہیں اور شیخیاں اس لئے بگھاری جا رہی ہیں کہ غاصب اور جعلی ریاست کے حکمرانوں اور تمام تر اداروں پر ایک ہلاکت خیز خوف چھایا ہؤا ہے، محور مقاومت (محاذ مزاحمت) نے تنازعے کے تمام مغربی اور صہیونی قواعد کو توڑ کر رکھ دیا ہے، صہیونیوں کی دفاعی صلاحیت ٹوٹ چکی ہے، اور محور مقاومت میں گذشتہ تین برسوں سے دفاعی حالت چھوڑ کر یلغار اور حملے کی پالیسی اپنا رکھی ہے؛ اور اس کے مقابلے میں صہیونی ریاست نے حملے کی پوزیشن چھوڑ کر دفاعی پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے؛ صہیونی آبادکار بدامنی اور خوف و ہراس کا شکار ہو چکے ہیں، اور فوج اور ریاست پر سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے چنانچہ اب صہیونی حکام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے سوا اس کے شیخیاں بگھاریں اور محلات کے اندر شور مچائیں اور جذباتی نعروں سے اپنے غاصب عوام کو یقین دہانی کی کوشش کرا دیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے!

بے شک اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب کی عارضی ریاست کے ہسٹيريانی نعروں کا جواب اپنے انداز سے دیتا ہے، پہلے مرحلے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے “خیبر بیلسٹک میزائل کی رونمائی کا اہتمام کیا جو 2000 کلومیٹر کے فاصلے پر مار کرتا ہے اور ڈیڑھ ٹن کا وار ہیڈ ہدف تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی صلاحیتوں میں سے ایک ہے کہ اس کے وار ہیڈ کی سمت کو بیچ راستے ـ خلا میں ـ بھی بدلا جا سکتا ہے؛ 12 منٹ میں ہدف تک پہنچتا ہے، یہ میزائل ایسی ٹیکنالوجی سے لیس ہے کہ دشمن کا راڈار کسی صورت میں بھی اس کا کھوج نہیں لگا سکتا اور کوئی بھی دفاعی نظام اس کو نشانہ نہیں بنا سکتا۔ چنانچہ ایران نے شور مچائے بغیر صہیونی ریاست کی دھمکیوں سے نمٹنے کا ایک مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔

اور ہاں! جہاں تک موصولہ اطلاعات کا تعلق ہے تو صہیونیوں کی دھمکیاں ایران کو تو خوفزدہ نہیں کر سکی ہیں مگر صہیونیوں کے داخل محاذ میں زبردست خوف و دہشت کا باعث بنی ہیں، یہاں تک کہ صہیونیوں کی وزارت جنگ کے ترجمان نے کہا ہے کہ “یہ درست ہے خطے کے حالات تشویشناک ہیں مگر اسرائیلی حکام کی حالیہ اظہارات اور اعلانات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تل ابیب حزب اللہ لبنان یا ایران پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے!؟بشکریہ ابنا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …