ہفتہ , 20 اپریل 2024

غاصب صیہونی رژیم کی سب سے بڑی کمزوری سید حسن نصراللہ کی زبانی

(تحریر: علی احمدی)

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عید مزاحمت اور جنوبی لبنان کی آزادی کی سالگرہ کی مناسبت سے اپنی تازہ ترین تقریر میں کہا: "اسلامی مزاحمتی بلاک میں انسانی قوت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل میں انسانی قوت زوال کا شکار ہے اور اسرائیلی فوجی جنگ سے بھاگ رہے ہیں۔” سید حسن نصراللہ نے اس جملے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں کا تذکرہ شروع کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ صیہونی دشمن کی کمزوریوں سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں۔ انہوں نے صیہونیوں کی جانب سے "اسٹریٹجک پسپائی” کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان میں اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی جرات نہیں ہے اور وہ بھاگنے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے یہ بات ایسے وقت کہی ہے جب جب صیہونی رژیم اندرونی طور پر شدید کمزوریوں کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی کمزوری انسانی قوت کا فقدان ہے۔

اس بات پر بہت سے دلائل اور شواہد پائے جاتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1)۔ صیہونی فوجیوں کا فوج سے فرار
صیہونی چینل 12 نے حال ہی میں ایک سروے رپورٹ کے نتائج شائع کئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی جوانوں کا ایک تہائی حصہ فوج میں شمولیت سے گریزاں ہے۔ صیہونی چینل نے اسے ایک خطرناک حقیقت قرار دیا ہے۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار "اسرائیل ہیوم” نے بھی فاش کیا ہے کہ صیہونی فوج، لازمی فوجی ٹریننگ سے بھاگنے والے جوانوں کی تعداد سے بہت پریشان ہے اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کا سدباب کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔ گذشتہ برس مارچ میں صیہونی فوج کی ریزرو فورس کے افسر اسحاق برک نے چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: "اسرائیل اس وقت گذشتہ چند عشروں کی نسبت بدترین سکیورٹی صورتحال سے روبرو ہے۔”

2)۔ غیر یقینی اور تاریک مستقبل
اخبار اسرائیل ہیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں صیہونی فوج میں بڑے پیمانے پر استعفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی سپاہیوں اور افسران کے بڑھتے استعفوں نے اسرائیل کو انسانی قوت کی شدید قلت سے روبرو کر ڈالا ہے اور سینکڑوں افسر اور سپاہی فوج میں کام کرنا نہیں چاہتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہیں۔ صیہونی رژیم کی ملٹری فاونڈیشن کے اراکین نے بھی اعلان کیا ہے کہ مجموعی طور پر اسرائیل کے مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی۔ اسرائیل ہیوم اپنی رپورٹ میں مزید لکھتا ہے: "2022ء میں میجر لیول کے 613 مستقل افسران اسرائیلی فوج چھوڑ کر چلے گئے تھے جس کی وجہ سے انسانی قوت کا بحران مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔”

دوسری طرف اسی صیہونی اخبار نے اپنی ایک اور رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی عیاں کیا ہے کہ اسرائیلی جوانوں کا ایک تہائی حصہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ 25 سال بعد اسرائیل کا وجود باقی نہیں رہے گا لہذا اسی بنیاد پر ان کی اکثریت فوج میں بھرتی ہونے سے کتراتی ہے۔ صیہونی اداروں کی جانب سے انجام پانے والے تازہ ترین سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی عوام کی 50 فیصد کے قریب تعداد ملک کیلئے روشن مستقبل کے قائل نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں اسرائیل کی صورتحال مزید بدتر ہو جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم کے مستقبل سے متعلق اس تاریک منظرنامے کا اظہار صرف اسرائیلی جوانوں کی جانب سے فوج میں شمولیت سے کترانے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ صیہونی شہریوں میں نقل مکانی کے رجحان میں اضافے سے بھی ہوتا ہے۔ اسرائیل میں موجود شدید سکیورٹی اور اقتصادی بحران وہاں کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کر رہا ہے۔

3)۔ شدت سے کم ہوتی آبادی کا خوف
گذشتہ برس صیہونی رژیم کے سابق وزیر جنگ بنی گانتز نے فلسطینیوں کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور ان میں شدید عربی اور فلسطینی تشخص کے نتیجے میں اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ صیہونی رژیم کے ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کی روشنی میں بنی گانتز کا خوف مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث تھا۔ 2022ء کے آخر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی کل آبادی 90 لاکھ تک جا پہنچی ہے جس کا 21 فیصد حصہ عرب فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ ویب سائٹ مڈل ایسٹ مانیٹر نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہودی شہری، مقبوضہ فلسطین کی آبادی کا 47 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2030ء میں یہودیوں کی آبادی 42 فیصد جبکہ عرب فلسطینیوں کی آبادی 58 فیصد ہو جائے گی۔

دوسری طرف بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کے اقدامات شدید اندرونی بحران کا باعث بنے ہیں۔ گذشتہ مہینوں کے دوران پورے مقبوضہ فلسطین میں بڑی سطح پر حکومت مخالف عوامی مظاہرے منعقد ہو رہے ہیں۔ مظاہرین موجودہ کابینہ کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات انجام دینے کے خلاف ہیں۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار "ہارٹز” نے اس بارے میں لکھا ہے کہ نیتن یاہو کی جانب سے عدلیہ کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں اسرائیلی معاشرے میں گہری دراڑ پیدا ہو گئی ہے جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ پائلٹس اور مختلف بٹالین کمانڈرز بھی عدلیہ کے خلاف حکومتی اقدامات کی مخالفت میں استعفے دے رہے ہیں۔ ریزرو فورس میں شامل ہزاروں افراد نے اعلان کیا ہے کہ وہ عدلیہ کے خلاف اقدامات جاری رہنے کی صورت میں فوج میں کام نہیں کریں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …