ہفتہ , 20 اپریل 2024

اردوان کی فتح اسلام کی فتح ہے

(ریاض احمدچودھری)

ترکیہ کے مسلسل تیسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد رجب طیب اردوان نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ دراصل حقیقی جیت ترکیہ اور اس کے عوام کی ہوئی ہے۔ ترکیہ کے عوام نے ہمیں دوبارہ اقتدار سونپ دیا، ہمیں مزید 5 سال حکومت کرنے کی ذمہ داری دے دی۔ الیکشن میں کامیابی کے اصل حق دار 85 ملین ترک عوام ہیں۔آج ہم ایک بار پھر اپنی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم اپنے اتحاد کو برقرار رکھیں گے۔ ہم اپنی محنت جاری رکھیں گے اور وعدے پورے کریں گے۔ نوجوانوں سے خطاب میں کہا کہ سلام دعا کو اہمیت دو،چہرے پر مسکراہٹ رکھو،چلا کر مت بولو، عاجزی رکھو، علمی مجلس میں شرکت کرو، جاہل او رغلط ہمسائے سے دوررہو، غلط بات سے دور رہو، فراخ دل بنو، شفقت والا رویہ رکھو۔

ہمارے محترم دوست، دانشور اور روزنامہ پاکستان لاہور کے چیف ایڈیٹرجناب مجیب الرحمن شامی نے بھی طیب اردوان کے عوام سے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو کچھ انہوں نے عوام اور خصوصاً نوجوانوں سے کہا یہ ساری باتیں احادیث نبویؐ میں موجود ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ باتیں اپنے عوام کو نہیں بتائیں۔ ہمارے سیاستدان صرف ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ تبرا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ سے وہ کچھ کیا جو دشمن بھی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں جو لوگ جیتتے ہیں وہ ہارنے والوں کو کھانے کے درپے ہوتے ہیں اور جو ہارتے ہیں وہ جیتنے والوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ہمارے سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کو طیب اردوان سے سبق سیکھنا چاہیے کہ پہلے وطن کا سوچیں۔ اسے مضبوط کریں۔ اس کے اداروں کو مضبوط کریں۔ خود مضبوط ہوں۔ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کریں تاکہ عوام آپ کے ساتھ ہو۔ آپ کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں معاون ثابت ہو۔ مگر ہمارے رہنماؤں سے عوامی محبت کی صرف امید ہی رکھی جا سکتی ہے۔ شاید کبھی یہ امید حقیقت میں بدل جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان کو ترکیہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن ہمارے سیاستدان ملک کو نہیں بلکہ خود کو سلطان بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔

ہمارے سیاسی قائدین اور خاص طورپر مذہبی قائدین اپنے جلسے جلوسوں میں دین اسلام، قرآن و حدیث، سیرت طیبہ کے بڑے حوالے دیتے ہیں مگر کبھی انہوں نے ایسے الفاظ نہیں ادا کئے جیسے طیب اردوان نے عوام کے سامنے ادا کئے۔ طیب اردوان بیس سال سے ترک قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں انہوں نے ترکیہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور ہم ہیں کہ اپنے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ہم عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے کسی مخالف کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ یعنی جب آپ فتح حاصل کر لیتے ہیں تو آپ پورے ملک کے صدر یا وزیر اعظم ہیں۔ آپ پوری قوم کے رہنما ہیں۔ کسی خاص طبقے یا جماعت کے نہیں۔

صدارتی الیکشن کے دوسرے اور آخری مرحلے میں رجب طیب اردوان نے فتح حاصل کی جبکہ ان کے حریف کمال قلیچ دار دوسرے نمبر پر رہے۔ اردوان نے 52.24 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ کمال قلیچ دار نے 47.79 فیصد ووٹ لیے۔

طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اب دنیا بھر میں امن و سلامتی قائم کرنے کے لئے اقدامات کرے گا۔ ہمارا مقصد پوری دنیا اور بالخصوص یورپ سے بحیرہ اسود تک اور مشرق وسطیٰ سے شمالی افریقہ تک سلامتی و امن قائم کرنا ہے۔یورپی یونین کے ساتھ ویزا سے متعلق مسئلے کو بھی جلد از جلد حل کر لیں گے جبکہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور معیشت اولین ترجیح ہے۔ یہ وقت متحد اور اکٹھے ہونے کا ہے۔ اب یہ کام کرنے کا وقت ہے۔ ہماری اولین ترجیح ان شہروں کی آبادکاری ہے جو چھ فروری کے زلزلے میں تباہ ہوئے۔

ترکی کی اسلامی نشاۃ ثانیہ کے بانی محترم نجم الدین اربکان سابق وزیراعظم ترکی کی سربراہی میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے والے موجودہ صدر اپنی سیاسی بصیرت کے سبب نہ صرف چار مرتبہ اپنی پارٹی کو فتحیاب کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ عالمی سیاست میں ترکی کی عظمت رفتہ بحال کی ہے اور تمام تر سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود ملک کو استحکام اور مضبوط معیشت دی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ترکیہ اور اس کے صدر رجب طیب اردوان دونوں اس طرح مربوط ہوگئے ہیں کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردوان ہی ترکی ہیں اور ترکی ہی اردگان ہیں۔

رجب طیب اردوان جو خود 1999 میں اس لیے جیل گئے تھے کیونکہ انھوں نے سیکولر ریاست پر تنقید کی تھی نے 2003 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سخت گیر سیکولر طرز حکمرانی میں تبدیلی لائی ہے۔ اس کے باعث انھیں معاشرے کے قدامت پسند حلقوں سے غیر مشروط حمایت حاصل ہو گئی ہے۔وقت کے ساتھ انھوں نے اپنی پوزیشن مضبوط کرتے ہوئے مزید مذہبی قوانین لاگو کیے اور اپنے اتھارٹی میں اضافہ کرتے گئے۔ وہ پہلے ملک کے وزیرِ اعظم تھے تاہم وہ 2014 میں صدر بن گئے۔2016 کی ناکام بغاوت کے بعد انھوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …