ہفتہ , 20 اپریل 2024

فواد چوہدری کا اعلان: سمارٹ بننے کی کوشش یا پی ٹی آئی توڑنے کا پارٹ ٹُو؟

(فرحان خان)

چند ہی دن قبل پی ٹی آئی کو چھوڑ کر سیاست سے بریک لینے کا اعلان کرنے والے رہنما فواد چوہدری کے بدھ کی شام منظرعام پر آنے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا وہ کوئی نئی جماعت بنا رہے ہیں یا کسی جماعت کا حصہ بن رہے ہیں؟ اسی حوالے سے ’مائنس ون‘ یعنی عمران خان کے بغیر پارٹی کا ذکر بھی چل پڑا ہے۔

فواد چوہدری نے اڈیالہ جیل کے باہر کھڑے ہو کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کے چھ اہم رہنماؤں سے بات چیت ہوئی ہے۔مبصرین حیران اس بات پر ہیں کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ چند دن قبل ’سیاست چھوڑنے‘ کا اعلان کرنے والے فواد چوہدری نے یکدم سیاسی قلابازی کھائی اور کہا کہ ’ہم ملک کو پی ڈی ایم کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم کوئی حل نکالیں گے۔‘

فواد چوہدری کی مختصر گفتگو کے فوراً بعد ان رہنماؤں میں بعض نے اپنا موقف ٹوئٹر پر پوسٹ کیا، جن کے ساتھ بات ہونے کا دعویٰ فواد چوہدری نے کیا تھا۔اردو نیوز نے اس حوالے مزید جاننے کے لیے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرنے والے کچھ رہنماؤں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ کچھ سے تو رابطہ نہ ہو سکا اور تاہم بعض نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

اسد عمر کا فواد چوہدری کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار
اسد عمر نے جمعرات کو لاہور میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ’فواد صاحب ایکٹیو (متحرک) ہیں تو وہی بتائیں گے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘صحافی نے جب اسد عمر سے پوچھا کہ ’آپ ایکٹیو ہیں یا نہیں؟‘ تو کا کہنا تھا کہ ’نہیں، فواد صاحب جو کر رہے ہیں، میں اس میں ایکٹیو نہیں ہوں۔‘

واضح رہے کہ اسد عمر نے چند دن قبل پی ٹی آئی کے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا تاہم انہوں نے پارٹی کو خیرباد کہنے کی تاثر کی نفی کی تھی۔

مائنس ون کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ حماد اظہر
حماد اظہر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مائنس ون تو نہیں ہو سکتا۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ملک کے 70 سے 80 فیصد ووٹرز اس وقت عمران خان کے ساتھ ہیں۔ مائنس ون کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔‘
فواد چوہدری کی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ شاید اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی قابل قبول حل نکلے، کشیدگی میں کمی اور سیاسی استحکام آئے۔ لیکن استحکام ایسے تو نہیں آ سکتا۔‘
فواد چوہدری کی سرگرمی کہاں تک پہنچی؟ اس سوال کے جواب میں حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ’اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے۔‘

انہوں نے جہانگیر ترین کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’میں جہانگیر ترین صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الحال اپنی سیٹ بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘

سیاست تو چھوڑ دی ہے لیکن دوستوں کے ساتھ تو کھڑا ہونا پڑتا ہے، محمود مولوی
کراچی سے پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی محمود باقی مولوی نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’میں نے کل کہا تھا کہ میں 48 گھنٹے تک صورت حال پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ سب چیزیں اس دورانیے میں واضح ہو جائیں گی۔‘

سیاست چھوڑنے کے اعلان اور پھر اچانک پریس کانفرنس میں کیمروں کے سامنے آنے سے متعلق سوال پر محمود مولوی کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں سیاست تو میں نے چھوڑ دی ہے لیکن دوستوں کے ساتھ تو کھڑا ہونا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سیاست چھوڑ دی ہے لیکن ملنا جلنا تو چلتا ہے۔ کوئی شادی کی تقریب ہو تو وہاں جانا ہوتا ہے۔ اسی طرح گپ شپ بھی چلتی رہتی ہے۔‘

ان رہنماؤں کے علاوہ اسد قیصر، فرخ حبیب، شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی، عاطف خان، شہرام ترکئی، علی نواز اعوان اور حلیم عادل شیخ فواد چوہدری کے بیان سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔

’سیاسی عمل میں اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے‘
سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مائنس ون کے نام سے جو کچھ کیا جا رہا ہے۔ یہ غلط فیصلہ ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’پہلے ایک شخص کو 2011 سے 2022 تک ہیرو بنائے رکھا گیا اور اس پر سرمایہ کاری کی گئی۔ اب سیاسی عمل میں اور طرح کی اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے۔‘

’اس وقت جن لوگوں کو عمران کے مقابل یا متبادل کے طور پر سامنے لایا گیا ہے وہ وہی ہیں جو ماضی قریب میں ہونے والے واقعات کے ایک طرح سے آرگنائزر تھے۔‘’یہ وہی فواد چوہدری ہیں جو کہتے تھے کہ عمران خان کو اقتدار سے باہر کیا گیا تو سول نافرمانی ہو گی، ملک میں خون خرابہ ہو گا۔‘

فواد چوہدری کے اچانک متحرک ہو جانے پر افتخار احمد کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں فواد چوہدری اور ان کے کچھ دوستوں نے اپنے طور پر زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش کی ہے۔‘

’منحرف لیڈرز ایک جگہ جمع ہو رہے ہیں‘
سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان کی رائے قدرے مختلف ہیں۔ وہ نئی پیش رفت کو بھی پی ٹی آئی کی تحلیل کے عمل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ضیغم خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ’فواد چوہدری کی پریس کانفرنس) پی ٹی آئی کے خلاف جاری عمل کا پارٹ ٹُو ہے۔ پہلے پارٹی سے لیڈرز باہر نکالے گئے اور پھر اب ووٹر کو باہر لانے کے لیے انہی لوگوں کو دوبارہ جوڑا جا رہا ہے۔‘

’یہ پارٹی کے مختلف گروپس ہیں۔ چونکہ کرنی تو انہوں نے سیاست ہی ہے۔ اس لیے یہ آپشن تلاش کر رہے ہیں اور دی گئی ہدایات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔‘

مائنس عمران خان فارمولا کیا شکل اختیار کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ضیغم خان نے کہا کہ ’اگر مائنس ون کا مطلب ایسی مکمل پی ٹی آئی ہے جس کی قیادت عمران خان کے پاس نہ ہو اور دیگر لوگ اس پر قبضہ کر لیں۔ ظاہر ہے اس کا امکان تو نہیں ہے۔‘

’ہاں، اب یہی ہو سکتا ہے ایک یا ایک سے زائد گروپس ہوں جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے جمع ہوں گے۔‘

’جہانگیر ترین کا اثر و رسوخ اہم فیکٹر‘
جہانگیر خان ترین فیکٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’جہانگیر ترین بااثر شخص ہیں۔ ایک تو ان کا سیاسی اثر ہے جیسا کہ وہ بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں لائے تھے۔‘

’دوسرا ان کا مالی اثرورسوخ ہے۔ پاکستان میں الیکشن کے لیے مالی طور پر مضبوط ہونا اہم ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین نے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو بہت زیادہ مالی سپورٹ فراہم کی تھی۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ وہ اب بھی الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد جن پر انہوں نے سرمایہ کاری کر رکھی، ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوں گے جو انتخابی سیاست پر کافی اثر ڈالے گا۔‘بشکریہ اردو نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …