بدھ , 24 اپریل 2024

صحرائے سینا میں اسلامی مزاحمت کا احیاء

(تحریر: عبدالباری عطوان)

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ روز مصر کی سرحد کے قریب صیہونی فوجیوں پر فائرنگ کے واقعے میں تین صیہونی ہلاک اور دو شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ کرنے والا شخص جو خود بھی شہید ہو گیا ہے، مصری فوجی تھا۔ اگرچہ اس بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اسرائیل اور مصر نے بھی سرکاری سطح پر بیانیے جاری کئے ہیں لیکن جو حقیقت واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ شہادت طلبی پر مبنی تھا اور ایک مزاحمتی کاروائی تھی۔ مصری فوجی نے اپنے ملک کی سرحدوں کے قریب غاصب صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنا کر 11 کروڑ مصری عوام اور 50 کروڑ عرب مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ یہ اقدام قومی اور مذہبی جذبے کی بنیاد پر انجام پایا اور اس کا منشیات کی اسمگلنگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس مصری فوجی نے یہ مزاحمتی کاروائی خالصتاً قومی اور مذہبی جذبات کے تحت انجام دی ہے اور اس کا واحد مقصد اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے اظہار ہمدردی کرنا تھا۔ وہ بے گناہ فلسطینی جو آئے دن غاصب صیہونی رژیم کی ظالمانہ کاروائیوں اور جارحانہ فضائی حملوں کے نتیجے میں شہید ہو رہے ہیں۔ غاصب صیہونی فوجی فلسطینیوں کے گھر مسمار کر رہے ہیں اور زیتون کے درخت اکھاڑ کر ان کے باغات بھی نابود کر رہے ہیں۔ یہ مزاحمتی کاروائی ان فلسطینی شہیدوں سے اظہار ہمدردی کیلئے انجام پائی ہے جن کے جسد خاکی اب بھی غاصب صیہونیوں کے قبضے میں ہیں اور وہ کفن دفن کیلئے ان کے جنازے بھی لواحقین کے سپرد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مصری فوجی نے یہ مزاحمتی کاروائی ان فلسطینی قیدیوں سے اظہار ہمدردی کیلئے انجام دی ہے جنہیں دن رات توہین آمیز اقدامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس مصری فوجی نے اپنی قومی ذمہ داری پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس اسرائیلی گشتی ٹیم کا مقابلہ کیا ہے جس نے طاقت کے بل بوتے پر اس کے ملک کی سرحدوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا تھا۔ غاصب صیہونی رژیم کے سیاسی سربراہان، فوجی کمانڈرز اور فوجیوں کو جان لینا چاہئے کہ سازباز کے پرانے اور نئے معاہدے ہر گز انہیں امن اور سلامتی فراہم نہیں کر سکتے۔ یہ معاہدے کسی صورت میں مسلمان عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے اور ان کے عقائد میں تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ ان معاہدوں کو طاقت کے زور پر اور شدید پابندیوں کی مدد سے اسلامی حکومتوں پر تھونپا جاتا ہے جبکہ مسلمان عوام کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مصری فوجی کی جانب سے اس مزاحمتی کاروائی نے چند عشرے قبل صحرائے سینا میں اس مصری نوجوان کی یاد تازہ کر دی ہے جس نے ایسی ہی مزاحتی کاروائی کے ذریعے کئی صیہونی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔

آیا اسرائیلی حکمران ایک با ایمان مصری فوجی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی آئے دن مسجد اقصی پر جارحیت اور بے حرمتی کو برداشت کرے گا اور نابلس، جنین، طول کرم اور غزہ میں غاصب صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے فلسطینی بھائیوں کا بہتا لہو دیکھ کر خاموش رہے گا؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ مصری فوجی ان کے میزائل حملوں میں بے گناہ بچوں اور خواتین کے قتل عام کا مشاہدہ کر کے غیر جانبدار باقی رہے گا؟ اسرائیلی حکمرانوں نے اس مصری فوجی کو دہشت گرد قرار دیا ہے جو انتہائی درجہ گستاخی ہے۔ کیا اپنے وطن کی مٹی کا دفاع کرنا دہشت گردی ہے؟ کیا قابض قوتوں کے زیر قبضہ بھوکے پیاسے محاصرے کا شکار مسلمان بھائیوں سے ہمدردی کا اظہار کرنا دہشت گردی ہے؟ کیا دوسروں کی سرزمین پر طاقت کے بل بوتے پر قبضہ جما کر یہودی بستیاں تعمیر کرنا اور مقامی افراد کو جلاوطنی پر مجبور کر دینا مہذب ہونے کی علامت ہے؟

مصر کی سرحد کے قریب اس مصری فوجی کی جانب سے انجام پانے والی مزاحمتی کاروائی کو مشرق وسطی اور اسلامی دنیا میں کروڑوں افراد نے سراہا ہے اور اسے مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کے قتل عام اور آئے روز غاصب صیہونی رژیم کی شام پر جارحیت اور اسلامی مزاحمتی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کا ردعمل قرار دیا ہے۔ ہم اسرائیلی حکمرانوں کو مخاطب قرار دے کر کہتے ہیں کہ کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرنے یا کانٹے دار تار نصب کرنے سے آپ کی سکیورٹی بحال نہیں ہو گی اور نہ ہی آپ کے غاصبانہ قبضے کی مدت بڑھ جانے کا باعث بنے گی۔ اے اسرائیلی حکمرانو، وہ وقت کب کا گزر چکا ہے جب تم چند گھنٹوں کی جنگ سے خطے پر اپنی مرضی تھونپ دیتے تھے۔ میزائلوں، ڈرون طیاروں اور راکٹوں کے دور میں دیوار تعمیر کرنا خود کو دھوکہ دینے کے برابر ہے۔

شاید کچھ حکومتیں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ سازباز پر تیار ہو جائیں لیکن مسلمان اقوام، خاص طور پر مصر کی قوم ہر گز ایسا نہیں کریں گی۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس سازباز کا نتیجہ سوائے بھوک اور نابودی کے کچھ نہیں نکلے گا۔ مصر، اردن، سوڈان اور مراکش کی صورتحال صیہونی رژیم سے سازباز کرنے سے پہلے بہت بہتر تھی۔ غاصب صیہونی رژیم ہر طرف سے اسلامی مزاحمت کے میزائلوں اور دیگر اسلحہ کے گھیرے میں ہے۔ شمال، جنوب، مشرق اور حتی مغرب اور حتی سمندر کی جانب سے بھی صیہونی رژیم کی سرحدیں سلامت نہیں ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کے ایئرپورٹس بھی محفوظ نہیں ہیں اور سیف القدس معرکے میں اس کا بہترین مظاہرہ کیا گیا ہے۔ شاید شام کی جانب سے چند محاذوں پر جنگ کرنے کی مشقیں اسی حقیقت پر زور دیتی ہیں جو ہم بیان کر چکے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …