جمعہ , 19 اپریل 2024

بجٹ سے امید نہ لگائیں؟

(تحریر : انجم فاروق)

اچھے دن ہمیشہ پرچھائیوں اور بادلوں کی مانند ہوتے ہیں اور جب یہ بیت جاتے ہیں تو پھر سوگوار یادوں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ وہ آنکھیں جو حسنِ بہار کی دید سے محظوظ ہوا کرتی تھیں، انہیں طوفان کے غضب اور خزاں کی یاس کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ سماعتیں جو ندی کی لہروں کی ابدی موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہیں‘ انہیں سرکش ہواؤں کی چنگھاڑ اور سمندر کا بے ہنگم شور و غل بھی سننا پڑتاہے۔ زندگی کا حسن یہ ہے کہ جہاں اچھے دن گزر جاتے ہیں‘ وہیں برا وقت بھی ہمیشہ نہیں رہتا۔ آگے بڑھنے کا جذبہ اور محنت کی طاقت انسان میں امید کی تخم ریزی کرتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مشکل حالات ماضی کا قصہ بن جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شہباز حکومت عوام کو معاشی اور سیاسی بھنور سے نکالنے کے لیے دن رات ایک کر سکتی ہے؟ کیا حکومت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ مہنگائی کے طوفان کا رخ موڑ سکے؟ کیا ہمیں آنے والے دنوں میں حکومت سے بہتر اقدامات کی امید رکھنی چاہیے؟

سیاسی بحران دھیرے دھیرے مدہم پڑ رہا ہے مگر دکھ یہ ہے کہ معاشی بحران کی جڑیں مضبوط سے مضبوط اور گہری سے گہری ہو رہی ہیں۔ ہر مہینے مہنگائی کا نیا ریلا آتا ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ مہنگائی کی شرح بڑھتے بڑھتے 38 فیصد پر پہنچ چکی ہے اور فوڈ آئٹمز کی مہنگائی 48 فیصد پر چلی گئی ہے۔ ایشیا میں کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں جہاں اتنی مہنگائی ہو۔ سری لنکا دیوالیہ ہو چکا مگر وہاں بھی مہنگائی اس شرح تک نہیں بڑھی۔ ایسے میں پاکستان کے عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ مڈل کلاس کا بھرم ختم ہو چکا ہے اور ہر شخص دوسرے سے زیادہ پریشان نظر آتا ہے۔ کسی کوکھانے کے لالے پڑے ہیں تو کوئی بچوں کی فیسوں کے باعث فکرمند ہے۔ کسی سے گھر کا کرایہ نہیں دیا جا رہا تو کسی کی زندگی پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کے نرخوں کی وجہ سے اجیرن بنی ہوئی ہے۔ روپے کی گراوٹ نے مہنگائی کے بڑھنے میں وہی کردار ادا کیا ہے جو آگ کو بھڑکانے میں تیل کرتا ہے۔

دس اپریل 2022ء کو ڈالر 188 روپے کا تھا اور اب یہ 287 روپے پہ جا پہنچا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں تو یہ 310 روپے میں بھی نہیں مل رہا۔ روپے کی قدر میں تنزلی نے درآمدی اشیا کا حصول مزید مشکل بنا دیا ہے۔ گاڑیوں کی قیمتیں سو فیصد سے زائد بڑھ چکی ہے اور ادویات کا بھی یہی حال ہے۔ موبائل فونز سے لے کر موٹر سائیکلوں تک، کھانے پینے کی اشیا سے لے گھریلو استعمال کی چیزوں تک‘ اتنی مہنگائی ہو چکی ہے کہ اب ہر شے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ جو چیز ایک سال پہلے ہزار روپے کی آ جاتی تھی اب پانچ ہزار روپے میں ملتی ہے اور جو چیز تیس لاکھ کی ملتی تھی‘ وہ اب ساٹھ لاکھ روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ وسائل محدود ہیں اور مہنگائی لامحدود۔ جینا مشکل سے مشکل ہو رہا ہے مگر حکومت کو کوئی فکر ہی نہیں۔ حکومت اپنی سیاست میں مگن ہے اور عوام مہنگائی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت کے سوا سال میں قرضوں کا بوجھ 34 فیصد بڑھ چکا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شما رکے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران 14900 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا ہے۔ اپریل 2022ء میں ملک پہ مجموعی قرضوں کا حجم 43705 ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر 58599 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ شہباز حکومت نے اوسطاً یومیہ 41 ارب روپے قرضہ لیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرضوں کا حجم بڑھنے میں روپے کی تنزلی کا بھی خاصا عمل دخل ہے مگر کیا اربابِ اختیار یہ بتانا پسند کریں گے کہ قوم قرضے کے چنگل سے کیسے نکلے گی؟ جیسے جیسے قرضہ بڑھ رہا ہے‘ ویسے ویسے سود اور بیرونی قرض کی ادائیگیوں میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام پرقرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لیے سالانہ 1500 ارب روپے درکار ہوتے تھے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ رقم بڑھ کر 4000 ارب روپے پر چلی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ حکومت کو اگلے مالی سال میں سود اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے 7000 ارب روپے درکار ہوں گے۔ اب یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا حکو مت کے اتنے وسائل ہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مختص کر سکے؟ کیا ہمارا ٹیکس وصولی کا حجم اتنا ہے کہ ہم اپنے وسائل سے یہ رقم ادا کر سکیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔

جس قوم سے 7000 ارب روپے ٹیکس اکٹھا نہ ہوتا ہو‘ وہ اتنی بڑی رقم ادھار کی مد میں کیسے ادا کر سکتی ہے؟ ہم نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ حکومتوں کی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس وصولی ہی ہے۔ دنیا بھر میں قومیں ٹیکس دیتی ہیں مگر ہمارے ہاں یہ کلچر پروان ہی نہیں چڑھ سکا۔ صرف ملازمت پیشہ لوگ ٹیکس دیتے ہیں یا پھر وہ صنعت کار جو کسی مجبوری کے تحت ٹیکس نظام کا حصہ ہیں۔ یہاں تاجر ٹیکس دیتے ہیں نہ زراعت کے شعبے سے ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔ ملک میں بائیس لاکھ چھوٹی بڑی دکانیں ہیں مگر آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ صرف تیس ہزار دکاندار ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ ملک کی بڑی بڑی مارکیٹوں میں روزانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے مگر ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاجر وں سے ٹیکس وصول نہ کرنے میں حکومتوں کی کوتاہی سرفہرست ہے۔ وہ اپنا ووٹ بینک بچانے کے لیے تاجروں کوٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کرتیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومتیں ایسا کر سکی نہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی باتیں تو ضرور ہوئیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی کچھ حال زراعت کے شعبے کا ہے۔ چھوٹے زمینداروں سے ٹیکس نہ لینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بڑے زمینداروں کو کیوں چھوٹ دی جاتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حکومت کو دینا چاہیے۔ حکومت اگر ملک کے مسائل اور عوام کی تکلیفوں سے آگاہ ہے تو پھر ٹیکس نیٹ بڑھانا ہو گا۔ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر حکومتیں آسانیاں ڈھونڈتی ہیں اور ہمیشہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھاتی جاتی ہیں۔ حکومت کو اس بار ٹیکس نادہندگان پر شکنجہ کسنا ہو گا ورنہ حالات پر اس کی گرفت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔

ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس وصولی جی ڈی پی کا بیس سے پچیس فیصد تک ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ محض نو فیصد ہے۔ اگر ہمیں ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا ہے تو چار کام فوری طور پر کرنا ہوں گے۔ اول: ٹیکس نیٹ کو جی ڈی پی کے کم از کم پندرہ فیصد تک لے کر جانا ہو گا۔ دوم: برآمدات کو پچاس ارب ڈالر تک پہنچانا ہو گا۔ سوم: بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلاتِ زر بینکنگ چینل سے بھیجنے کا پابند کرنا ہو گا۔ چہارم: اندرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو غیر ضروری غیر ملکی دورے ترک کرنا ہوں گے۔

آئندہ مالی سال کا بجٹ حکومت کا بہت بڑا امتحان ہے۔ اس بجٹ بارے بہت سی چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ حکومت اب دو ماہ کی مہمان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کو اپنی سیاست عزیز ہے یا ملکی مفاد مقدم ہے۔ اگر حکومت نے سیاست کو ترجیح دیتے ہوئے مراعات اور سبسڈیز دیں تو یہ یقینا سیاسی بجٹ ہو گا‘ ہر جاتی ہوئی حکومت ایسا ہی کرتی ہے لیکن اگر حکومت نے ملکی مفاد کو مقدم رکھا تو اس بجٹ میں مشکل فیصلے کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف پروگرام جوائن کرنا اس وقت ملک کی بنیادی معاشی ضرورت ہے۔ حکومت کو بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کو بھی مدِنظر رکھنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ پی ڈی ایم حکومت بھی وہی کرے جو پی ٹی آئی حکومت نے جاتے ہوئے کیا تھا۔ سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہد ہ توڑ دیا تھا اور بجلی اور پٹرول پر سبسڈی دیتے ہوئے قیمتوں کو فکس کر دیا تھا‘ اس سیاسی اقدام کا حکومت کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر اس کی قیمت ملک اور قوم آج تک ادا کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اگر سنجیدگی دکھائی اور سیاسی بجٹ دینے سے گریز کیا تو یہ معاشی مسائل حل کرنے کی سمت پہلا قدم ہو گا۔بشکریہ روزنامہ دنیا

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …