بدھ , 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا تو عدالت پنجاب انتخابات کیس کیسے سنے؟ جسٹس منیب اختر

اسلام آباد:پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا تو عدالت پنجاب انتخابات کیس کیسے سنے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس اور ریویو ایکٹ کو ساتھ سنتے ہیں، عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا کر استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نظر ثانی پر نئے قانون پر آپ کا کیا مؤقف ہے ؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا نظر ثانی پر نیا قانون آئین سے متصادم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا تسلسل ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس نئے نظر ثانی قانون کےخلاف کچھ درخواستیں آئی ہیں، نظر ثانی ایکٹ کے معاملے کو کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے، اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، نظر ثانی ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بینچ سنے گا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک بات اچھی ہوئی کہ حکومت اور اداروں نے کہا عدالت میں ہی دلائل دیں گے جو قانونی ہیں، ورنہ یہ تو عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے، اس احتجاج کا کیا مقصد تھا؟ انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے۔

چیف جسٹس نے علی ظفر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ اپنا نقطہ نظر بتا دیں، ہم کیا سوچ رہے ہیں پھر ہم بتا دیں گے۔

علی ظفر نے کہا کہ میرا خیال ہے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کو سنا جائے، میں نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر جواب تیار کر رکھا ہے، عدالت ساتھ ساتھ رویو پوائنٹ کے خلاف بھی درخواست سن لے، اگر ریویو پوائنٹ برقرار رہا تو پھر الیکشن کمیشن کی درخواست لارجر بینچ سن لے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہو گا، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟ آپ بتائیں کہ کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ، پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟ آپ کیا کہتے ہیں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پرانے قانون کے تحت سنی جائے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ جی ابھی اس درخواست کو پرانے قانون کے تحت سن لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی برینڈ نیو کیس نہیں ہے، یہ پہلے سے ہوئے فیصلہ کے خلاف اپیل ہے، آئین پر سب متفق ہیں لیکن آئین کے نفاز پر سب کلئیر نہیں ہیں، جو کچھ ملک میں ہوا، میں 9 مئ کا حوالہ دے رہا ہوں۔

علی ظفر نے کہا کہ ملک میں آئین 14 مئ کے بعد مر چکا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 14مئی کو انتخابات کا فیصلہ کو اب واپس لانا ممکن نہیں، انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن ہم نے اصول طے کردیے کہ کن حالات میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں اور کن میں نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر لاجر بینچ بنا تو اس کے سامنے نئے نکات بھی اٹھائے جائیں گے، قانون کو رول بیک کرنا ممکن نہیں ہوگا، سوال یہ ہے کہ 90 دن میں الیکشن کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا تھا کیا 8 اکتوبر کے الیکشن پر آپ حتمی کہہ سکتے ہیں؟ ملک میں جو واقعات رونما ہوچکے اس کے بعد یہ سوال رکھا ہے۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ منگل (13 جون) تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 29 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی تھی، 2 روز قبل 5 جون کو عدالت نے کیس کی 7 جون (آج) کو سماعت مقرر کردی تھی۔

انتخابات التوا کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں، تاہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کے معاملے پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو آپس میں مذاکرات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، تاہم وہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے تھے۔

یہ بھی دیکھیں

اسرائیل دنیا کی ہمدردیاں کھو چکا ہے: امریکی عہدیدار

واشنگٹن:امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ …