(نسیم شاہد)
جس دن وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ کب تک قرضوں کی زندگی بسر کریں گے اس دن راولپنڈی کے 42سالہ دو بچوں کے باپ محمدمسعود نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کی اور اس کی وجہ سود پر اُٹھایا گیا قرضہ تھا جو بڑھتا ہی چلا گیا اور سود خوروں کی دھمکیاں اور تقاضوں سے تنگ آکر اس نے موت کو گلے لگا لیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ بڑے سود خوروں اور چھوٹے سود خوروں کے طریقہء واردات میں کتنی مماثلت ہے۔ محمدمسعود نے بھی یہی کیا تھا کہ ایک آن لائن ایپ سے بچوں کی فیسیں اور گھر کا خرچ چلانے کے لئے قرضہ لیا وہ قرضہ بروقت ادا نہ کر سکا تو بڑھتا گیا، اسے اتارنے کے لئے ایک دوسرے سود خور ادارے سے رجوع کیا۔ وہاں سے قرضہ لے کر پہلے کا اتارا مگر سود کی وجہ سے دونوں طرف کا قرضہ بڑھتا گیا، پھر نوبت یہاں تک آ گئی کہ کوئی سود پر قرضہ دینے کو بھی تیار نہ تھا جبکہ قرضہ دینے والوں کی دھمکیاں تھیں کہ بڑھتی جا رہی تھیں، بالآخر اس کے اعصاب جواب دے گئے، صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کراکے پنکھے سے رسا باندھا اور موت کی وادی میں چلا گیا۔
محمدمسعود خود تو موت کو گلے لگا کر چھٹکارا پا گیا لیکن اس کے بیوی بچے ابھی اس قرض کا عذاب بھگتیں گے کیونکہ جو سود خود مافیا ہے وہ مرنے والے کے بعد بھی اپنی سود در سود رقم کا تقاضا جاری رکھتا ہے۔ پاکستان کا حال بھی اسی محمدمسعود جیسا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ پاکستان پنکھے سے لٹک کر خودکشی نہیں کر سکتا،وگرنہ عالم یہ ہے کہ ہم ہزاروں ارب روپے کے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، اب ہمیں محمد مسعودکی طرح قرضے اتارنے کے لئے بھی قرض لینا پڑتا ہے، پہلے اور بعد میں لئے جانے والے قرض کا دہرا سود ہماری کمر پر لاد دیا جاتا ہے۔ اب نقارہ بج رہا ہے کہ سعودی عرب نے دو ارب ڈالر ہمارے خزانے میں جمع کرا دیئے ہیں جبکہ آئی ایم ایف بھی پہلی قسط جاری کرنے جا رہا ہے۔ یہ قرضہ پہلے سے لئے گئے قرض اتارنے پر صرف ہو جائے گا اور ہمارا کشکول خالی ہی رہے گا۔ اب وزیراعظم کہتے ہیں کہ رونے سے کام نہیں چلے گا، یہ پیغام اگر محمد مسعود کو بروقت مل جاتا تو شاید خود کو نہ مارتا، وزیراعظم کی یہ بات سنتا کہ قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے بھکاری پن ختم کرنا ہوگا،جس کا بال بال قرضے میں جکڑا ہو وہ بھکاری پن کیسے ختم کر سکتا ہے۔ شہبازشریف کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس مجبوراً گئے ہیں، کیا اس ملک میں کوئی شوق سے بھی آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے، جب ملک میں کچھ نہیں ہوتا تو قرضے واپس لینے والے چڑھ دوڑتے ہیں جن سے جان چھڑانے کے لئے آئی ایم ایف کے در پر سر جھکانا پڑتا ہے۔
یہ کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ ہم قرضوں پر کب تک زندگی بسر کریں گے جہاں قرض ملنے کو کامیابی سمجھا جاتا ہو وہاں یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ ابھی چند روز پہلے ہی تو وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار اس بات پر قوم کو مبارکباد دے رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے۔ صرف باتوں سے اگر حالات بدلتے اور قومیں ترقی کرتیں تو ہم کب کے دنیا میں خوشحالی حاصل کر چکے ہوتے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ ہم نے اس حوالے سے کیا لائحہ عمل بنایا ہے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ ابھی کل ہی یہ خبر آئی ہے کہ پی اے سی نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست طلب کرلی ہے۔ یہ ہر چار پانچ سال بعد اربوں روپے کے قرضے کیسے معاف ہو جاتے ہیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا کوئی بھی ملک ہمیں دیئے گئے قرضے تو معاف نہیں کرتا پھر ہم یہ شاہ خرچیاں کیسے کرتے ہیں، قرضے معاف ہوتے رہیں گے تو ملک پر قرضے چڑھتے رہیں گے، کیا اس سلسلے میں حکومت نے کوئی چال چلن بدلا، میں نے تو وزیراعظم کا اس ضمن میں کوئی بیان نہیں دیکھا جس میں انہوں نے کہا ہو کہ اب کسی کے قرضے معاف نہیں کئے جائیں گے اور جن کے قرضے ناجائز طورپر معاف کئے گئے ہیں ان سے وصولی کی جائے گی۔اگر رونے سے کام نہیں چلے گا تو اس طرح قرضے معاف کرنے سے کام بھی نہیں چل سکتا۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیرون ملک سے اربوں ڈالر موصول ہوتے ہیں مگر ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں قرضہ بڑھتا جاتا ہے اور ساتھ ہی غربت اور افلاس میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آخر یہ اربوں ڈالر جاتے کہاں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اربوں ڈالر اُس رقم کے علاوہ ہوتے ہیں جو پچیس کروڑ عوام پر نت نئے ٹیکس لگا کر حاصل کی جاتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے بھکاری پن ختم کرنا ہوگا، مگر حضور کیسے؟ کچھ اس بارے میں بھی بتایئے۔ یہ معجزہ کیسے ہوگا اور راتوں رات تبدیلی کیسے آئے گی۔
ماجرا یہ ہے کہ ہم کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کہ رہے جو ہمیں خودانحصاری کی منزل تک لے جائے۔ ہمارے شاہانہ اخراجات اُسی طرح جاری ہیں۔ بچت کے سلسلے میں کوئی ایک قدم اٹھایا گیا ہو تو بتایا جائے۔ اس ملک کی سرکاری مشینری پر مراعات کی بارش کر دی گئی ہے۔ ایک ایک افسر کے پاس کئی کئی گاڑیاں ہیں جن کے پٹرول کی مد میں کروڑوں روپے روزانہ لٹائے جاتے ہیں تقریباً 95رکنی کابینہ کے اخراجات تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لئے ہمارے سارے کس بل نکال دیئے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف باتیں تو بڑی اچھی کر لیتے ہیں لیکن ان کی باتوں میں مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے،حل کہیں نظر نہیں آتا۔ کشکول توڑنے کی باتیں بھی ہمارے سیاسی بیانیے کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔ یہ کام ایوب دور سے جاری ہے اور اب تک کوئی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے یہ دعویٰ نہ کیا ہو کہ وہ قرض کی لعنت سے قوم کو نجات دلائے گا۔ اس میں سبھی ایک کشتی کے سوار ہیں، کیا بے نظیر بھٹو، کیا نوازشریف،کیا عمران خان اور کیا شہبازشریف۔ صرف بڑھک مار دینے سے تو بات نہیں بنتی، عملی طور پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، ابھی تک تو حالات یہی ہیں کہ جو حکومت بھی آتی ہے وہ اربوں ڈالر کے مزید قرضے چڑھا کر رخصت ہو جاتی ہے۔
عمران خان نے 2018ء کی انتخابی مہم میں کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلانے کا نعرہ لگایا تھا، حکومت میں آکر اس نعرے کی وجہ سے وہ پہلے سال آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے لئے ہچکچاتے رہے جبکہ انہوں نے معیشت کی بحالی کے لئے کوئی ایسا کام بھی نہیں کیا جس کی بدولت آئی ایم ایف سے چھٹکارا مل سکتا، نتیجہ یہ نکلا کہ ملک معاشی دلدل میں پھنستا چلا گیا جس پر آئی ایم ایف کی طرف سے صاف جواب دیا گیا کہ بھکاری کبھی پسند کا انتخاب نہیں کر سکتے تو ایسے میں یہ سوال نہ کئے جائیں کہ کب تک قرضو ں کی زندگی بسر کریں گے بلکہ اس کا جواب دیا جائے کہ قرضوں سے نجات کب ملے گی؟ یہ کام عوام نے نہیں کرنا ان لوگوں نے کرنا ہے جو حکمران طبقوں میں شمار ہوتے ہیں۔عوام کو نہ کہا جائے کہ رونے سے کام نہیں چلے گا بلکہ عوام کے نام پر قرضے لے کر جو رونا دھونا کیا جاتا ہے، اُسے ختم کیا جائے۔ اشرافیہ جب تک اپنا چال چلن نہیں بدلے گی ملک اسی طرح قرضوں کی دلدل میں پھنسا رہے گا۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔