پیر , 25 ستمبر 2023

ملک میں انتخابی التوا کے ہتھکنڈے

( سید مجاہد علی)

ایک ایسے وقت میں جب ملکی مباحثہ کا اہم ترین موضوع قومی اسمبلی کی تحلیل کے وقت سے متعلق ہے، وزیر اعظم نے اشارہ دیا ہے کہ ان کی حکومت مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اقتدار نگران حکومت کے حوالے کردے گی۔ شہباز شریف کے اس بیان سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملے گی کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کروانے کے لئے 60 کی بجائے 90 دن کی مہلت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

اب اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے موجودہ حکومتی انتظام کو وسعت دینے کے ہر آئینی و سیاسی امکان پر غور کیا ہے۔ دوبئی میں بڑوں کی ملاقات میں بھی یہی موضوع اہم ترین تھا تاہم وہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس حوالے سے جو خبریں سامنے آئی تھیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی صورت موجودہ سیاسی انتظام میں توسیع کی حامی نہیں اور نئے انتخابات پر زور دے رہی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے براہ راست تو انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا اشارہ نہیں دیا اور نہ ہی اس کا امکان ہے کہ نواز شریف نے آصف زرداری کے ساتھ بات چیت کے دوران اسے سیاسی مطالبہ بنا کر پیش کیا ہو گا تاہم بالواسطہ طور سے امکانات اور ممکنات کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر غور ضرور ہوا ہو گا۔

مسلم لیگ (ن) کے ثانوی درجے کے متعدد لیڈر انتخابات ملتوی کرنے کا راگ الاپتے رہے ہیں اور اس حوالے سے ماضی کی مثالیں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف رائے دی۔ مولانا فضل الرحمان نے دوبئی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مذاکرات پر خفگی کا اظہار کیا کہ انہیں اس معاملہ میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس بیان کے بعد ان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی جس میں موجودہ حکومت کو مقررہ وقت پر ختم کرنے پر اصرار کیا گیا۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران قوم سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے اگست میں اقتدار نگران حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم انہوں نے انتخابات کے شیڈول کے بارے میں کوئی اشارہ دینے سے گریز کیا۔ اس تقریر کے فوری بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم 12 اگست کو قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے پر اسے تحلیل ہونے دیں۔ چند روز پہلے قومی اسمبلی نہ توڑی جائے۔

پیپلز پارٹی کے اس مطالبہ کا ایک ہی مقصد تھا کہ پارٹی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد فوری انتخابات کی حامی ہے۔ کیوں کہ اگر قومی اسمبلی 12 اگست کو مدت پوری کر کے تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے مطابق 60 روز کے اندر انتخابات کروانا ضروری ہوں گے جبکہ اگر وزیر اعظم چند روز پہلے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو انتخابات کروانے کی مدت 90 دن ہو جائے گی۔ آج شہباز شریف نے سیالکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری حکومت آئندہ ماہ اپنی مدت پوری کرے گی اور مدت پوری ہونے سے پہلے ہم چلے جائیں گے۔ نئی عبوری حکومت آئے گی، اس کے بعد الیکشن میں اللہ تعالیٰ جس کو بھی موقع دے‘ ۔

وزیر اعظم نے وقت سے پہلے چلے جانے کا جو ذکر کیا ہے، اس کا ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف 12 اگست سے پہلے قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی مدت ساٹھ دن کی بجائے نوے دن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فالتو ایام خاص طور سے ملکی سیاست میں نواز شریف کے کردار کے حوالے سے اہم سمجھے جا رہے ہیں۔ نواز شریف بار بار اعلان کرنے کے باوجود ابھی تک ملک واپس نہیں آئے اور نہ ہی عدالتوں نے انہیں کوئی ریلیف دیا ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے متعدد قانونی آپشنز پر غور کیا ہے لیکن لگتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی موجودگی میں نواز شریف کو اپنے خلاف مقدمات میں سہولت ملنے کا امکان نہیں۔ اسی لئے حکومت کا خیال ہے کہ ستمبر کے وسط میں جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ سہولت حاصل کی جا سکے گی۔ اس حساب سے نواز شریف اگر ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں وطن واپس آ پاتے ہیں تو وہ ساٹھ دن کے اندر انتخابات ہونے کی صورت میں نہ انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی پارٹی کی انتخابی مہم کی موثر انداز میں قیادت کر سکتے ہیں۔

اس پس منظر میں حکومت کے لئے انتخابات کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت کی اہم اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اس بارے میں کیا موقف اختیار کرتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان تو شاید خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں مناسب سیاسی اثر و رسوخ کے وعدے پر اس التوا پر راضی ہوجائیں لیکن پیپلز پارٹی کیوں مسلم لیگ (ن) کو یہ رعایت دے گی۔ اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے آصف زرداری کا مطالبہ پورا کرے یا انتخابات کے بعد کوئی اتحادی حکومت بننے کی صورت میں کوئی دلکش سیاسی پیش کش کی جائے۔ آصف زرداری کو بھی اندازہ ہو گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اگر غیر معمولی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے لانچ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس صورت میں اسے کسی کم تر سیاسی فائدے پر متفق ہونا پڑے گا۔ ایک امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آصف زرداری خود ایک بار پھر صدر بننے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہوں۔

شہباز شریف نے اگر 12 اگست سے پہلے اسمبلی توڑی تو انہیں نہ صرف حلیف سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنا ہوں گے بلکہ آئینی اور اخلاقی لحاظ سے بھی ان کی پوزیشن کمزور ہوگی۔ انتخابات کے انعقاد میں صرف 30 اضافی دن لینے کے لئے اگر مدت پوری ہونے سے محض دو تین روز پہلے اسمبلی توڑی جاتی ہے تو سب کو دکھائی دے گا کہ یہ فیصلہ کسی وسیع تر قومی مفاد کی بجائے صرف ایک پارٹی کی سہولت کاری کے لئے کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس سال کے شروع میں جب پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑی تھیں تو حکومتی حلقے یہ دلیل دیتے رہے تھے کہ کسی آئینی جواز کے بنا اسمبلیاں نہیں توڑی جا سکتیں۔ اگرچہ اس فیصلہ کو مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسرے فریق نے عدالت میں چیلنج نہیں کیا لیکن اس سوال پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) ہی دونوں صوبوں کی اسمبلیاں توڑے جانے سے پہلے یہ موقف اختیار کرتی تھی کہ اگر عمران خان جلد انتخابات چاہتے ہیں تو وہ دونوں صوبوں کی اسمبلیاں توڑ دیں تاکہ عام انتخابات کا راستہ آسان ہو جائے۔ البتہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد حکومتی پارٹیوں نے اپنا سیاسی رویہ تبدیل کر لیا تھا۔

اس پس منظر میں شہباز شریف اگر انتخابات کے انعقاد کی مدت میں ایک ماہ اضافے کے لئے چند دن پہلے قومی اسمبلی توڑنے کا اقدام کرتے ہیں تو اسے ان کی سیاسی بدنیتی کہا جائے گا۔ تھوڑے سے سیاسی فائدے کے لئے چند روز پہلے قومی اسمبلی توڑ کر انتخابات میں التوا مسلم لیگ (ن) کے ان دعوؤں کو کمزور کرے گا کہ وہ انتخابات سے نہیں گھبراتی بلکہ قومی ضرورت کی وجہ سے بہر صورت اسمبلی کی مدت پوری کرنے پر مجبور تھی۔ آئینی لحاظ سے اگرچہ وزیر اعظم کو اسمبلی توڑنے کا حق حاصل ہے لیکن اسمبلی تحلیل ہونے سے چند دن پہلے اس حق کا استعمال آئین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو گا۔ صرف ایک شخص کے لئے ایک مشکل وقت میں انتخابات کے ساتھ کھلواڑ اور آئینی تقاضوں کو موم کی ناک بنانے کا رویہ ملکی سیاست پر دیرپا اور منفی اثرات مرتب کرے گا۔

یہ تو قابل فہم ہے کہ شہباز حکومت کے مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور اسے اندیشہ ہے کہ عوام مہنگائی اور بجلی و پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہیں اور اسے شاید حسب توقع کامیابی حاصل نہ ہو سکے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) نے سوچ سمجھ کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی حمایت کی تھی اور اس کے بعد انتخابات منعقد کروانے کی بجائے حکومت سنبھالنے اور اتحادی جماعتوں کی کمزور حکومت کی قیادت پر راضی ہو گئی تھی۔ ہر سیاسی پارٹی کو اپنے سیاسی فیصلوں کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی یہ قیمت دینے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ اس کی بجائے متبادل سیاسی ہتھکنڈے اختیار کر کے انتخابات ملتوی کرنے یا ان پر اثر انداز ہونے کا طریقہ غیر سیاسی و غیر جمہوری ہو گا۔ لیکن دریں حالات شاید ملکی سیاسی پارٹیوں کو اس کی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔ قومی سیاست میں اصولوں یا قومی مفاد کی بجائے ذاتی فائدے اور مخصوص سیاسی پارٹی کے نقطہ نظر سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

شہباز شریف نے آج کی تقریر میں نواز شریف کو ملک کے آئندہ وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا ہے اور خطاب میں کہا کہ ’اگر قوم نے آئندہ الیکشن میں نواز شریف کو موقع دیا تو میں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ نواز شریف، میں اور ہماری پوری ٹیم مل کر پاکستان کا نقشہ بدل دیں گے۔ اور ملک کو ترقی و خوشحالی کے دور میں لے کر جائیں گے‘ ۔ یادش بخیر شہباز شریف یا ان کی پارٹی پہلی بار یہ وعدہ نہیں کر رہی۔ گزشتہ تیس برس کے دوران مسلم لیگ (ن) متعدد بار پنجاب اور مرکز میں اقتدار حاصل کر چکی ہے تاہم ان ادوار میں پاکستان کو جنت نظیر بنا دینے کا کوئی وعدہ پورا نہیں ہوسکا۔ اس کا سارا الزام صرف مسلم لیگ (ن) پر تو عائد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے یہ سبق ضرور سیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کو معاشی بحالی کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے کی بجائے تمام سیاسی فریقوں کو کھلے دل سے جمہوری و آئینی نظام حکومت کے لئے باہمی اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا۔بشکریہ ہم سب نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان: کیا یہ ٹیم کچھ کرپائے گی؟

(سید حیدر) مسلسل دو ہفتوں سے سنسنی پھیلانے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے مالکان …