(تحریر: سید رضا عمادی)
خارجہ پالیسی میں امریکہ کی حکمت عملیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ملکوں کو، خاص طور پر اپنے حامی و مخالف ممالک کو اپنے اہداف کے راستے میں قربان کر دیتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ عالمی نظام میں واحد سپر پاور بن کر سامنے آیا، لیکن امریکہ کا یک قطبی اور یکطرفہ نظام بہت جلد زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا، خاص طور پر 21ویں صدی کی دوسری دہائی میں عالمی نظام کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ گیا۔ چین، روس، یورپی یونین اور ایران جیسی ابھرتی ہوئی طاقتیں ان ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے امریکہ کی قیادت میں یک قطبی اور یکطرفہ ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا۔
یونی پولر آرڈر کے زوال سے نمٹنے کیلئے امریکی حکمت عملی
یونی پولر آرڈر کے زوال سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے مختلف حکمت عملی اپنائی۔اس نے پابندیوں اور ڈالروں کو استعمال میں لا کر مخالف طاقتوں کے خلاف اتحاد بنایا اور خاص طور پر ان ممالک کو بین الملکی جنگ اور اندرونی بحرانوں میں مبتلا کیا، جو امریکی حکمت عملیوں کو چیلنج کرنے میں شامل تھے۔ امریکہ نے یہ حکمت عملی انفرادی طور پر اور ممالک کے خلاف مشترکہ طور پر استعمال کی۔ ایران، روس، شام، یمن اور یوکرین ان اہم ممالک میں شامل ہیں، جو امریکہ کی جابرانہ پالیسیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ایران، شام اور حتی یمن کی جنگ میں پابندیوں، ڈالروں اور تنازعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ شام نے بھی 2011ء کے بعد سے ایک جنگ دیکھی، جس میں دنیا بھر سے دہشت گردوں کو شام میں لانچ کیا گیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت سے بشارالاسد کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ 2015ء میں ایک جنگ کا مشاہدہ کیا گیا، جس کا مرکز سعودی عرب تھا اور اس کا مقصد مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کو طاقت حاصل کرنے سے روکنا تھا۔ اس سازش کو بھی امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ روس، جو امریکہ کا سب سے اہم عالمی حریف ہے، فروری 2022ء سے یوکرین کی جنگ میں شامل ہے۔ اس جنگ کا بنیادی ہدف جو مغرب کے انتظام میں ہوئی اور زوال کے راستے پر ہے، روس کی عالمی پوزیشن کو کمزور کرنا اور عالمی نظام میں روس کی پوزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا ہے۔ اس جنگ کا سب سے بڑا شکار یوکرین کے لوگ ہیں، جو روس کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کا ہتھیار بن چکے ہیں۔
اس سلسلے میں شام کے صدر بشار اسد نے منگل کی شام روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خصوصی ایلچی الیگزینڈر لاورینٹینوف اور ان کے ہمراہ وفد کی میزبانی کی۔اس ملاقات میں بشار الاسد نے امریکہ کی طرف سے مختلف ممالک کو قربانی کا بکرا بنائے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "امریکہ اور مغرب نے عالمی سیاسی بحران پیدا کیا اور یوں وہ معاشی بحران اور عالمی سطح پر عدم استحکام کا باعث بنے۔ ان ممالک کا ہدف بین الاقوامی سطح پر روس کی پوزیشن کو تباہ کرنا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے یوکرین کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔
مختلف ممالک کو قربانی کا بکرا بنانے کی حکمت عملی کا بنیادی نتیجہ لاکھوں لوگوں کا قتل اور زخمی ہونا نیز لاکھوں لوگوں کا اپنے ملکوں کے اندر اور باہر بے گھر ہونا ہے۔ لاکھوں گھروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ ہدف والے ممالک کو سینکڑوں بلین ڈالر کا معاشی نقصانات برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان ممالک کے عوام امریکی حریفوں کو اقتدار حاصل کرنے نیز یکطرفہ اور یک قطبی نظام کو ختم کرنے سے روکنے کی امریکی پالیسی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کہانی میں ایک اور تلخ نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نہ صرف خود ان بحرانوں کا سبب بنتا ہے بلکہ ان ممالک میں انسانی اور شہری حقوق کے دفاع کا دعویدار بن کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو متعلقہ ممالک کے خلاف استعمال بھی کرتا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔