(نسیم شاہد)
جوں جوں وقت گزرے گا الیکشن کے لئے دباﺅ بڑھتا جائے گا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط میں 6نومبر تک انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت العلمائے اسلام اسے نظام میں بھونچال لانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ کون سا نظام؟ اس کی وضاحت کر دی جائے تو شاید یہ بات سمجھ آ سکے کہ آئینی مدت کے دوران انتخابات کرانے کی تجویز دینے سے کیا بھونچال آ سکتا ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی بھی یہ سمجھتی ہے پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہورہا ہے اور اسے نظام سے باہر رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں۔ انہوں نے ملتان میں ایک بڑی اہم بات کی ہے کہ اس وقت الیکشن کمیشن سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں کہ انتخابات کب ہوں گے ، سوائے ایک جماعت کے، جب ایک جماعت کو پہلے سے پتہ ہے کہ الیکشن کب ہوں گے تو وہ لیول پلینگ فیلڈ کی بات کیوں نہ کریں۔ ان کا اشارہ واضح طور پر مسلم لیگ(ن) کی طرف ہے، جس کے رہنما علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ فروری سے پہلے انتخابات نہیں ہو سکتے۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات بہت اہم ہے کہ نوے دنوں میں انتخابات نہ ہوئے تو پھر کب ہوں گے، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا کیونکہ آئینی مدت کی قدغن تو دور ہو چکی ہو گی۔
تحریک انصاف پہلے ہی اپنے اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر کرائے جائیں، اس مقصد کے لئے اس کی طرف سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے اور اس نے صد رمملکت کی انتخابات کے حوالے سے تجویز کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت لندن چلی گئی ۔ اس سارے کھیل میں شہبازشریف کے اس اعلان نے اگرچہ ہلچل مچا دی ہے کہ نوازشڑیف 21اکتوبر کو پاکستان آ رہے ہیں تاہم جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک کے مصداق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس اعلان پر عملدرآمد ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ بظاہر حالات سازگار نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف عمران خان کو مقدمے پر مقدمہ بنا کر اندر رکھا جائے اور دوسری طرف عدالتیں نوازشریف کی دی گئی سزا ختم کر دیں۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ اس سارے تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کا اشارتاً ایسی باتیں کرنا ، اس بڑی گیم کا راز کھولتی ہیں، اس سارے عمل کو مشکل بنا سکتا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے ہر رہنما کی طرف سے یہ گردان کہ الیکشن کی تاریخ صرف الیکشن کمیشن دے سکتا ہے۔ اس سکرپٹ کو بے نقاب کرتا ہے جو اس حوالے سے لکھا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کوئی آئین سے ماورا ادارہ نہیں، نہ ہی وہ غیر معینہ عرصے تک انتخابات کو زیر التواءرکھ سکتا ہے اسے بہرحال آئین کی حدود میں رہ کر اپنا یہ بنیادی فرض ادا کرنا ہوگا۔ صرف ہٹ دھرمی سے کام نہیں چل سکتا اگر صورت حال یہی رہی تو معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ خود صدر مملکت بھی اپنے خط میں الیکشن کمشنر کو یہ تجویز دے چکے ہیں کہ وفاق اور چاروں صوبوں میں بیک وقت انتخابات کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
اس وقت کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کس کا ایجنڈا کیا ہے۔ کون فیصلے کر رہا ہے اور کس کے ہاتھ میں طاقت کی اصل کمان ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاءبندیال جو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہو رہے ہیں۔ یہ اہم سوال چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ جب آئین میں 90دنوں کے اندر انتخابات کرانے کی واضح شق موجود ہے تو پھر بار بار اس بارے میں وضاحت کیوں مانگی جاتی ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات 90دنوں میں کرائے جائیں گے۔ جاتے جاتے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اللہ سے دعا ہے انہیں قوم اچھے نام سے یاد رکھے۔ پاکستان میں ایسا ہوتا نہیں۔ بڑی بڑی نمایاں شخصیات افتاد زمانہ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جسٹس عمر عطاءبندیال کے دور کو تو ایک ہنگامہ خیز دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وہ اپنے ایک حالیہ فیصلے میں خود کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کو آئینی معاملات میں الجھا اور دباﺅ ڈال کر فیصلے کروانے کی کوشش کی گئی ، بہت سا وقت بھی ضائع ہوا تاہم تاریخ میں یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ انہوں نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد 14مئی 2023ءکو انتخابات کروانے کا جو حکم دیا، اس پر عملدرآمد نہ کرا سکے، نہ ہی اس حکم کو نہ ماننے والوں کا انہوں نے تعین کیا یا کوئی سزا دی۔ اب اس فیصلے کی عدالتی تاریخ میں اتنی حیثیت تو ہے کہ اس میں یہ طے کر دیا گیا ہے انتخابات 90دنوں ہی میں ہونے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ اگر نہیں کرائے جاتے تو الیکشن کمیشن یا دیگر ذمہ دار اداروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی جس قسم کے حالات ہیں اس میں یہ امکان موجود ہے کہ انتخابات کے لئے ابھی شاید بہت کچھ کرنا پڑے۔ اگر سپریم کورٹ کے حکم پر بھی انتخابات نہیں کرائے جاتے تو پھر اس معاملے میں کس ادارے کے تحت پیش رفت ہوگی۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کل کلاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود مسلم لیگ ن کو یہ ضرورت پڑ جائے کہ ملک کو دوبارہ جمہوری ٹریک پر لانے کے لئے جدوجہد کرنی پڑے۔ وطن عزیز میں ایم آر ڈی، اے آر ڈی، اسلامی جمہوری اتحاد، قومی اتحاد اور ان جیسی کئی تحریکیں اس بات کی گواہ ہیں کہ جب ایک بار جمہوریت پٹڑی سے اترتی ہے تو اسے دوبارہ ٹریک پر لانے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی تقسیم تو یہ موجود ہے کہ خود سیاسی جماعتیں انتخابات کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں۔پیپلزپارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری اگرچہ انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں تاہم آصف علی زرداری اس حوالے سے واضح پوزیشن نہیں لے رہے۔ باقی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت میں رہی ہیں فوری انتخابات کے حق میں نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب بھی ان کی سربراہی کر رہی ہے۔ یہ سب جماعتیں تحریک انصاف کے مقابل کھڑی ہیں۔ ایک ایسی جماعت جسے بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اب بھی سیاسی جماعتوں کے لئے خوف کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اب یہ کون کہہ سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد تحریک انصاف کا زور ٹوٹ جائے گا، لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔ حالات موافق ہوں گے اور تب انتخابات کے لئے مطالبہ کیا جائے گا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں کا مطالبہ مان کر انتخابات کرا دیئے جائیں گے۔ یہ بہت غیر یقینی صورت حال کو جنم دینے والے فیصلے ہیں ، اپنے ہاتھوں سے طشتری میں سجائے غیر معینہ عرصے تک اقتدار غیر نمائندہ لوگوں کو سونپنا، سیاسی بصیرت سے عاری فیصلہ نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف اقتدار کی سیاست نہ کی جائے بلکہ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کو اہمیت دی جائے۔ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو خود سیاسی قوتوں کو پچھتانا پڑے گا۔ آئین کی چھتری موجود رہے تو ہرمسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس وقت یوں لگ رہا ہے کہ ہم آئین کی چھتری سے محروم ہو گئے ہیں اور ایڈہاک ازم کی بنیاد پر معاملات چلا رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار خود سیاسی جماعتیں انتخابات سے گریزاں ہیں اور یہ جمہوریت اور سیاسی استحکام کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔