(تحریر: محمد بیات)
سعودی عرب کے دو اہم اتحادیوں یعنی بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ابراہیم معاہدے پر دستخط سے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے (انکشاف) کے بارے میں سیاسی میڈیا کی قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2020ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل بہت سے ماہرین کی رائے تھی کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر عہدہ صدارت پر آجاتے ہیں تو نوجوان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، جیرڈ کشنر کی رہنمائی میں ابراہیم معاہدے کے عمل میں شامل ہو جائے گا۔
صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جیت دیگر علاقائی حکومتوں کے ساتھ مل کر سعودی حکومت کو مغربی ایشیاء کے طاقت کے مراکز کے ساتھ کشیدگی میں کمی کی طرف اپنی خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کرنے کا سبب بنی۔ اس کے بعد سے، سعودی صیہونی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی ثالثی کے تسلسل کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ کہانی کے دونوں فریق "نارمالائزیشن” کے اہداف اور فوائد کے بارے میں مشترکہ نظریہ نہیں رکھتے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم کے دفتر نے حال ہی میں اعلان کیا کہ سعودی عرب نے واشنگٹن کو مطلع کیا ہے کہ وہ بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ میں انتہاء پسند عناصر کی موجودگی اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں واضح نقطہ نظر کی کمی کی وجہ سے مذاکرات کی میز سے نکل جائے گا۔ یہ خبر تمام مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں تیزی سے پھیلی۔ جیسا کہ وال سٹریٹ جرنل نے ایک مضمون میں مملکت سعودی عرب، صیہونی حکومت اور امریکہ کی جنوری 2024ءتک تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کی خواہش کے بارے میں رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں میکانزم کا تعین کرنے کے لیے 2020ء میں بن سلمان اور نیتن یاہو کے درمیان دو خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں بھی انکشاف کیا گیا ہے۔
ریاض تل ابیب تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی ثالثی کے میدان میں متضاد خبروں کی اشاعت مختصر مدت میں سعودی حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں سیاسی طاقت کی تبدیلی، ایران کے ساتھ بیجنگ کے معاہدے پر دستخط، بی بی کی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی موجودگی اور ریاض کو کلیدی رعایتیں دینے میں واشنگٹن اور تل ابیب کی ہچکچاہٹ نے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے عناصر کو ایک مختلف پالیسی اپنانے پر متوجہ کیا ہے۔
سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فلسفے کے بارے میں اختلاف کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ رک گیا ہے اور سعودی عرب نے ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے سے دوری اختیار کی ہے۔ ویژن 2030ء دستاویز کے اہداف کی بنیاد پر، ریاض واشنگٹن سے اسٹریٹجک رعایتیں حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جیسے کہ یورینیم افزودگی کا حق حاصل کرنا یا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ فوجی معاہدے پر عمل درآمد، جو کہ زیادہ تر ماہرین کے مطابق ایک حساس مسئلہ ہے۔ یہ اقدام مغربی ایشیاء کے سکیورٹی آرڈر کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔
حرمین شریفین کی میزبانی کی وجہ سے مملکت سعودی عرب کو عرب حکومتوں اور عالم اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ نوجوان سعودی ولی عہد کی طرف سے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا کوئی بھی اقدام، فلسطین کے مسئلے سے قطع نظر، آل سعود کی حیثیت کی بنیادوں کو کمزور کرسکتا ہے اور یہاں تک کہ جزیرہ نما عرب میں وسیع پیمانے پر بغاوت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ریاض کے لیے زیادہ سے زیادہ قومی مفادات کو برقرار رکھنا اور مسئلہ فلسطین کو حل کرنا ایک یقینی سرخ لکیر دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب صیہونی حکومت کے وزیراعظم نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ ایران اور مزاحمت کے بلاک کا سامنا کرنے کے بعد ان کی کابینہ کا دوسرا بڑا منصوبہ ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاملے کو آگے بڑھانا ہے۔صیہونی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابراہیم معاہدے میں سعودی عرب کی شمولیت سے صیہونی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے خلاف عرب ممالک میں ایک وسیع لہر پیدا ہو جائے گی۔ اس بنا پر مذاکرات کے عمل کو معمول پر لانے کے اقدام سے سعودی عرب کی عارضی دستبرداری صیہونی حکومت کی موجودہ کابینہ کے لیے بدترین خبر ہے۔
اس کے باوجود صہیونیوں نے اس واقعے کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ مثال کے طور پر معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت کے لیے سعودی شرائط کی اشاعت کے بعد صیہونی حکومت کے بہت سے سیاسی و فوجی حکام نے سعودی عرب کو جوہری دفاعی رعایت دینے کی مخالفت کی اور اسے ایک اسٹریٹجک غلطی قرار دیا ہے۔ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے اجلاس میں صیہونی وفد کی موجودگی، ریاض میں منعقدہ عالمی چیمپئن شپ میں صہیونی ویٹ لفٹر کی شرکت اور دوہری شہریت والے صہیونی شہریوں کے سعودی عرب کے سفر میں اضافہ دونوں کے درمیان معمول کے پروگرام کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔
2024ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے غیر یقینی نتائج اور واشنگٹن اور تل ابیب کی جانب سے جوہری، فوجی اور فلسطینی مسائل میں تزویراتی رعایت دینے کی مزاحمت پر سعودی مذاکراتی ٹیم کو نہ صرف جارحانہ موقف اپنانا پڑا بلکہ امن کے عمل سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ مغربی ایشیائی امور کے ماہرین مستقبل میں ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کو ناگزیر سمجھتے ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے درمیان شدید مسابقت کی موجودگی کی وجہ سے اس عمل کو مختصر اور درمیانی مدت میں کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا، اس بارے میں بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔