ہفتہ , 2 دسمبر 2023

بشار الاسد کا دورہ چین

(تحریر: سید رضی عمادی)

21 ستمبر بروز جمعرات شام کے صدر بشار الاسد چین کے شہر ہانگژو میں ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے مشرقی شہر ہانگ زو پہنچے، جہاں انہوں نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کی۔بشار الاسد کے دورہ چین کا تجزیہ دمشق اور بیجنگ کے مفادات کے تناظر میں کیا جانا چاہیئے۔ اسد کا بیجنگ کا دورہ شام کو مسلسل تنہائی کے دور سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے۔ شام 2011ء سے خانہ جنگی کا مشاہدہ کر رہا ہے، یہ جنگ اگرچہ اب بہت کم ہوچکی ہے، لیکن ملک کے کچھ حصے اب بھی دہشت گرد گروہوں کے قبضے میں ہیں اور ان پر بیرونی ممالک کا قبضہ بھی ہے۔

گذشتہ دو سالوں میں شام میں حزب اختلاف اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والے بعض ممالک کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے دمشق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت بیشتر عرب ممالک نے شام کے ساتھ تعلقات بحال کرتے ہوئے اس ملک کی تعمیر نو کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ شام عرب لیگ میں بھی واپس آگیا ہے۔ بشار الاسد کے دورہ بیجنگ کو اسی سیاسی عمل کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام سیاسی و سفارتی تنہائی کے دور سے عبور کر رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آخری بار بشار الاسد نے 2004ء میں بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چین کے سابق رہنماء ہوجن تاؤ سے ملاقات کی تھی۔ بشار الاسد کا 2004ء کا دورہ چین 1956ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد اس ملک کے سربراہ مملکت کی حیثیت سے چین کا پہلا دورہ تھا۔ اس لحاظ سے اسد کا بیجنگ کا حالیہ دورہ دمشق کی حکومت کے سربراہ کا چین کا دوسرا دورہ ہے اور بیجنگ میں Xi Jinping کے ساتھ بشار الاسد کی یہ پہلی ملاقات ہے۔ شام کی تعمیر نو میں چینی سرمایہ کو راغب کرنے کی اسد کی کوشش اس دورہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ شام کو دہشت گردوں اور باغیوں کے ساتھ ایک دہائی کی جنگ کے بعد تعمیر نو کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔دہشت گردوں نے ملک کا تقریباً 80 فیصد بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے۔ آج چین دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے اور چین مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کی ضروری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے اسد کو امید ہے کہ چین شام کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اسد کا دورہ چین اس ملک کی حکومت کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ چین مغربی ایشیاء میں موجودگی کی خواہش رکھتا ہے۔

گذشتہ سال کے دوران، چین نے مغربی ایشیائی خطے میں اپنی سفارتی کوششیں تیز کی ہیں، جس سے خاص طور پر گذشتہ مارچ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی۔ ایسا لگتا ہے کہ چین شام کے ساتھ خاص طور پر اقتصادی جہت میں تعلقات بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شامی میڈیا ذرائع نے بتایا کہ چین کے صدر نے شام کے صدر بشار الاسد اور ان کے ساتھ آنے والے وفد کے دورے کے لیے ایک نجی صدارتی طیارہ مختص کیا، جس سے اس دورے میں بیجنگ کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اعتماد اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو گہرا کرے گا اور دو طرفہ تعلقات کو نئی سطح پر لے جائے گا۔ چین اور شام کے درمیان گہری روایتی دوستی ہے، جو 76 سال پہلے کی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے وسعت اور ترقی کرتے رہے ہیں۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ اسد کا بیجنگ کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب بیجنگ "بیلٹ اینڈ روڈ” کانفرنس کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس کا آغاز اگلے ماہ 110 سے زائد ممالک کے نمائندوں کی شرکت سے ہوگا۔ بلاشبہ چین اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ان ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ دینے اور ان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد کو بہت اہمیت دیتا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …