ہفتہ , 2 دسمبر 2023

اسرائیل سے دوستانہ تعلقات، سعودی عرب کہاں کھڑا ہے؟

(تحریر: عبدالباری عطوان)

سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو اس وقت اس ملک کے اصل حکمران ہیں، نے حال ہی میں امریکی چینل فاکس نیوز سے انٹرویو کے دوران کہا کہ ان کا ملک اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور اس بارے میں جو بائیڈن حکومت سے مذاکرات جاری ہیں۔ ان کے اس بیان نے میڈیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ ہم نہیں جانتے کن وجوہات کی بنا پر سعودی ولیعہد اس طرف جا رہے ہیں۔ وہ بھی ایسے وقت جب سعودی حکومت گذشتہ چند سال کے دوران اندرونی اصلاحات انجام دے چکی ہے اور اقتصادی شعبے میں کامیابیاں بھی حاصل کر چکی ہے۔ سعودی عرب نے اس دوران امریکہ سے اپنے تاریخی تعلقات کم کر کے چین اور روس سے قرابتیں بڑھائی ہیں اور برکس اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کر چکا ہے۔

برکس اتحاد مغربی تنظیموں جیسے آئی ایم اف، جی 7 اور نیٹو کا متبادل تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب جہاں خانہ کعبہ واقع ہے اور ہر سال کروڑوں مسلمان حج ادا کرنے اور خانہ خدا کی زیارت کرنے وہاں جاتے ہیں، ایسی نسل پرست اور غاصب رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا محتاج نہیں جس نے مسلمانوں کے تیسرے مقدس حرم یعنی مسجد اقصی اور عرب اور اسلامی سرزمین فلسطین پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دوستان تعلقات استوار ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر سعودی عرب کی قومی سلامتی اور استحکام پر پڑے گا اور عرب اور اسلامی دنیا میں اس کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ ممکن ہے سعودی عرب اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے بدلے امریکہ سے ایک سکیورٹی یا دفاعی معاہدے کے درپے ہے اور پرامن جوہری پروگرام حاصل کرنا چاہتا ہو۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاض ان معاہدوں کا محتاج نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی طاقت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اور دنیا میں اس کا اثرورسوخ زوال کا شکار ہے۔ واضح ہے کہ سعودی عرب چین، روس اور حتی شمالی کوریا سے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے۔ ایسا ملک جس نے چین کے صدر کی میزبانی کی ہو اور اپنے ملک میں اس سے تین مذاکراتی نشستیں منعقد کر چکا ہو اسے نہ تو امریکہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اسرائیلی جیسی غاصب، نسل پرست اور فاشسٹ رژیم کا محتاج ہے۔ ایسی رژیم جو حتی مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور خیبر جیسے علاقوں کے بارے میں بھی اپنے ناپاک عزائم کا کھلم کھلا اظہار کر چکی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات کی آڑ میں اپنے ناپاک عزائم کو جواز فراہم کرنا چاہتی ہے۔

اگرچہ شہزادہ محمد بن سلمان نے فاکس نیوز سے انٹرویو کے دوران مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور اس کا مناسب راہ حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے اس راہ حل کو صرف فلسطینی عوام کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے تک محدود رکھا ہے اور اس عرب امن منصوبے کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا جو اصل میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور اس کی بنیاد پر سعودی عرب نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی استواری کو تین اہم شرائط یعنی تمام فلسطینی سرزمینوں سے پیچھے ہٹ جانے، فلسطین کی خودمختار ریاست کی تشکیل اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی سے مشروط کیا تھا۔ 2003ء میں بیروت میں منعقدہ عرب سربراہی کانفرنس میں شریک تمام رہنماوں نے بھی اس بات پر زور دیا تھا اور ہم امیدوار ہیں شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے حالیہ انٹرویو میں اس کا ذکر نہ کرنا محض بھول کا نتیجہ ہے۔

خاص طور پر جب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 53 ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں عرب امن منصوبے کے تحت خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے۔ سعودی عرب نے گذشتہ چند سالوں کے دوران اقتصادی شعبے میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کئے بغیر حاصل ہوئی ہیں۔ حتی ان میں سے زیادہ تر کامیابیاں اس وقت حاصل ہوئی ہیں جب سعودی عرب نے امریکہ سے تعلقات کی سطح کم کر رکھی تھی۔ فلسطینی قوم ہمیشہ سے غاصب دشمن کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے اور اس کے مقابلے میں مزاحمت کر رہی ہے۔ اس راستے میں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں تاکہ فلسطینی قوم ایک عزت مندانہ زندگی حاصل کر سکے۔ یہ مقصد ایک خودمختار ریاست کی تشکیل کی صورت میں ہی قابل حصول ہے۔

امریکہ، جس نے عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور یمن کو تباہ و برباد کیا ہے وہ عرب اور مسلمانوں کی اچھائی کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے جال میں پھنس جانے والے ممالک کے حالات کا جائزہ نہیں لیتے ہوں گے۔ حتی امریکہ کی جانب سے انڈیا سے شروع ہو کر مغربی ایشیا کے ذریعے یورپ تک راہداری تشکیل دینے کا منصوبہ بھی ایک اور دھوکہ ہے۔ اگر دھوکہ نہ ہوتا تو یہ راہداری عراق، مصر، شام، ایران اور ترکی سے گزرنی چاہئے تھی۔ ہم شہزادہ محمد بن سلمان کو کہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں سے عاری ہے لیکن یقیناً اسرائیل کے پاس 200 جوہری بم موجود ہیں اور وہ بہت زیادہ خطرناک ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …