(تحریر: سید تنویر حیدر)
گذشتہ دنوں پاکستان کے موجودہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے امریکہ تشریف لے گئے۔ اقوام متحدہ میں اپنی موجودگی کے لمحات کو ہمیشہ تازہ رکھنے کے لیے جہاں انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی سیلفی بنانے کا مظاہرہ کیا، وہاں انہوں نے امریکہ میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان چین کے لیے اسی طرح ہے، جس طرح اسراٸیل امریکہ کے لیے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے امریکی اور اسراٸیلی حکام تو یہ جان کر دل ہی دل میں یقیناً خوش ہوئے ہوں گے کہ ان کے عشق کے تذکرے زبان غیر پر بھی کس درجے تک عام ہیں۔ البتہ وزیراعظم کی زباں سے امریکہ کے ایک ناجاٸز ریاست کے ساتھ تعلق کی اس پیمانے پر تشہیر کو ہمارے ملک کے ذراٸع ابلاغ تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
ان کے خیال میں پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کو اسراٸیل اور امریکہ کے تعلقات سے تشبیہ دینا کسی طور بھی موزوں نہیں تھا۔ اسراٸیل ایک غاصب ریاست ہے اور امریکہ اس کا سرپرست۔ کسی ایک کو کسی ایک سے تشبیہ دیتے وقت ان دونوں کی مشترکہ خصوصیات کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں جب ہم چین اور پاکستان کے مابین تعلقات پر گفتگو کرتے ہیں تو کچھ غیر ضروری التفات اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلقات کے ضمن میں جو بات بھی ہو، وہ فلمی طرز کے کسی ڈاٸیلاگ کی بجائے زمینی حقاٸق سے جڑی ہونی چاہیئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم جس چین کو دنیا کے سامنے اپنا محبوب بنا کر پیش کرتے ہیں، ہم اس کے رقیب امریکہ کی گلی میں بھی سر کے بل جانا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
اسراٸیل اور امریکہ کے باہمی تعلق کی مثال دیتے ہوئے ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کی ان کے مثالی تعلقات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں کے دوست اور دشمن مشترک ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے، جس پر حقیقی تعلق کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ دوست کا دوست، دوست اور دوست کا دشمن، دشمن ہوتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں خدا بھی مل جائے اور ہمارا صنم سے بھی رشتہ قاٸم رہے۔ ایسی صورت میں ہم کسی بت کدے کے چکر لگانے سے کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور نہ کعبے کے طواف سے اپنا گوہر مقصود پا سکتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے جو بھی تعلقات ہوں، وہ اپنی مثال آپ ہوں، نہ کہ ان کی مثال ایسے ممالک سے دی جائے، جن کا پاکستان اور چین سے جوڑ ہی نہیں بنتا۔
ہمیں خوش کن اور دل موہ لینے والے نعروں اور بیانوں کی بجائے اپنے اور چین کے تعلقات کے مابین پیدا ہونی والی اس ایک لکیر پر توجہ دینی چاہیئے، جو بڑھتے بڑھتے ایک خلیج کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اس وقت بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے چین اور پاکستان کی پالیسی میں بظاہر جو بُعد نظر آرہا ہے، آنے والے وقت میں وہ بعدالمشرقین بھی بن سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے جو ”سی پیک“ کا راگ الاپا گیا تھا، اس کی سریں اب کہیں ہوا میں ہی معلق ہو کر رہ گئی ہیں۔ آج چاٸینا اس منصوبے سے لاتعلق نظر آتا ہے۔ اس صورت حال سے فاٸدہ اٹھاتے ہوئے آج ہمیں امریکی عہدے دار کبھی گوادر اور کبھی گلگت بلتستان کا دورہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چین نے بھی اب اپنا رخ کسی اور جانب کر لیا ہے۔ اس کی نظر میں اب ”چاہ بہار“ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس نے اب اس طالبان حکومت کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں، جس کی سرحد پر ہمارا کھڑا کیا گیا ”باب دوستی“ اب بند ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ چین اب امریکہ کے مقابلے میں افغانستان کے راستے سے چاہ بہار سے ملنا چاہتا ہے۔ چاہ بہار کا تجارتی راستہ بھارت تک جاتا ہے، جس کے ذریعے سے ایران بھارت سے بھی اپنا تجارتی تعلق جوڑے ہوئے ہے۔ بدلتے حالات کے تناظر میں کل کلاں اگر چین اس راستے سے مکمل استفادہ کرنے کے لیے بھارت سے بھی اپنے تعلقات درست کر لیتا ہے، جس طرح اس نے طالبان سے درست کیے ہیں تو پھر ہم اپنا منہ لے کر کہاں جاٸیں گے۔؟
طالبان حکومت نے اب ایران سے بھی کافی حد تک اپنے تعلقات بہتر کر لیے ہیں۔ ایران کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ طالبان نے دہشت گردی کے حوالے سے ہم سے کافی حد تک تعاون کیا ہے اور ہم اس کے تعاون سے مطمئن ہیں۔ اس سے مراد طالبان کا ایران کی فرماٸش پر داعش کے قلع قمع کے لیے کوشش کرنا اور اسے ایران کے سرحدی علاقوں سے پسپا کرنا ہے، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے پرزور اصرار کے باوجود طالبان اپنے علاقے میں تحریک طالبان پاکستان سے صرف نظر کر رہا ہے۔ ہم اب تک جن کے لیے اپنے دوستوں کو دشمن بناتے رہے، آج وہ خود ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ یہ ہے ہماری خارجہ پالیسی۔؟ کاش ہمارے حکمرانوں کی نظر سے امیرالمٶمنین کا یہ فرمان گزرتا اور ہم بین الاقوام اپنی آبرو کا تحفظ کرسکتے۔ ”لا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِیقِکَ صَدِیقاً فَتُعَادِیَ صَدِیقَکَ“، ”اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناٶ، ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاٶ گے۔“بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔