(تحریر: توقیر کھرل)
دو دن پہلے اقوام متحدہ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں دو تقریریں بہت اہم تھیں، ایک ایرانی صدر کی اور دوسری اسرائیلی وزیراعظم کی۔ ایرانی صدر نے قرآن کریم اٹھا کر بتایا کہ یہ کتاب ہمیں بہت عزیز ہے۔ اس کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ دوسری تقریر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی تھی۔ نیتن یاہو نے ہاتھ میں مشرق وسطیٰ کا نقشہ اٹھایا۔ نقشہ میں ایشیاء کو وہ حصہ بھی دکھایا، جس میں پاکستان سمیت ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ نیتن یاہو نے کہا جب اسرائیل ملک بنا تو یہ ایک چھوٹا اور تنہا ملک تھا اور اس کے گرد سارے مخالف عرب اسلامی ممالک تھے۔ 70 سال امن کی کوششوں سے 2020ء میں عرب ممالک سے ابراہیم معاہدہ کیا۔
نیتن یاہو نے نقشہ پلٹتے ہوئے دوسرا رخ دکھا کر کہا جب سے ہم نے سعودی عرب سے امن معاہدہ کی کوششیں شروع کی ہیں تو اب دیکھیں سارا مشرق وسطیٰ بدل رہا ہے، ہم نے اسرائیل کے گرد و نواح کے عرب ممالک سے تعلقات کو مضبوط کیا ہے، اکثر عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ایک ہاتھ میں نقشہ اور دوسرے ہاتھ میں سرخ مارکر پکڑ کر کہا کہ ایک وقت تھا، جب میں نے یہاں کھڑے ہوکر یہ سرخ مارکر اس لئے اٹھایا تھا، کیونکہ میں نے ایران کے خطرہ سے سب کو آگاہ کیا تھا، مگر آج اس مارکر سے کامیابیوں کی نشاندہی کروں گا۔ نقشے پر ایشیاء سے خط کھینچتے ہوئے متحدہ عرب امارات، سعودیہ عرب سے ہوتے ہوئے اسرائیل اور پھر یورپ سے ملا کر کہا یہ ہے ہمارا نیا مشرق وسطیٰ۔
نیتین یاہو نے کہا ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر نیا معاہدہ کریں گے، جس میں دہشت گردی کو شکست اور امن کو فروغ دیں گے۔ ہم نئی تاریخ رقم کریں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کے ساتھ ایک عرب چینل کو انٹرویو میں خادم الحرمین الشریفین سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان نے کہا، ہاں بالکل ہم اسرائیل سے امن کی کوششوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ البتہ اس میں مسئلہ فلسطین کا حل مشروط ہے۔ محمد بن سلمان کو عرب ممالک میں امتیازی حیثیت حاصل ہے، اسرائیل کے قیام سے اب تک سعودیہ نے تسلیم نہیں کیا تھا، جس میں رکاوٹ سعودی عوام کی جانب سے فلسطینی عوام سے ہمدردی ہے۔ لیکن خفیہ ملاقاتیں رنگ لے آئیں ہیں، چند روز پہلے اسرائیلی وفد کا سعودیہ میں پرتپاک استقبال ہوا اور اب محمد بن سلمان نے واضح موقف اختیار کیا ہے کہ ہم اسرائیل سے تعلق کو مضبوط کریں گے۔
شاہ فیصل کے بعد محمد بن سلمان آل سعود کے دوسرے شہزادے ہیں، جو سعودیہ کو مذہبی شدت پسندی سے نکال کر دنیا سے تعلق کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ شاہ فیصل نے عرب اسرائیل جنگ کے دوران یورپ کا تیل بند کر دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر فلسطینیوں پر ظلم بند نہ ہوا تو تیل بند کر دیا جائے گا، جس کے بعد تاریخ میں پہلی بار تیل کی قیمتیں بے قابو ہوگئیں تھیں۔ اب دور بدل گیا ہے، آل سعود کا نیا شہزادہ ولی عہد اب تیل نہیں بند کرتا بلکہ برملا کہتا ہے کہ ہم اسرائیل سے تعلقات کو مضبوط کریں گے۔ مسلمانوں کے عظیم ملک کو فلسطین کاز سے کوئی غرض نہیں۔
سعودی عرب ایک طرف ایران، عراق اور شام سے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے، ایران کی طرح ایٹمی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیل سے تعلقات کو دوسرے ممالک کی طرح مضبوط سے مضبوط تر کر رہا ہے۔سعودی عرب پر اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کی طرف سے بھی ایک پریشر تھا، مگر سعودی بھائیوں کی نارملائزیشن کے بعد نگران وفاقی وزیر خارجہ کا بھی بیان آگیا ہے کہ ہم اسرائیل سے تعلقات پر ملکی مفادات میں کوئی فیصلہ کریں گے۔ کیا انہیں بانی پاکستان اور پاکستان کے موقف کو سمجھنے میں کوئی مشکل ہے۔؟بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔