(تحریر: حنیف غفاری)
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر حنیف غفاری نے اپنے تجزیئے میں لکھا ہے کہ یورپی ٹرائیکا نے گذشتہ ہفتے تہران اور بین الاقوامی نظام کو JCPOA کے تناظر میں دو منفی اشارے بھیجے ہیں۔ یورپیوں کا پہلا اقدام یہ تھا کہ انہوں نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کے دوران ایک جانبدارانہ بیان جاری کیا، جس کا مقصد ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی نوعیت کو غلط انداز میں پیش کرنا تھا۔ یورپی ٹرائیکا کی یہ کارروائی تین دیگر کھلاڑیوں یعنی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، صیہونی حکومت کے اعلیٰ حکام اور وائٹ ہاؤس کے ارکان کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ انجام پائی۔ اگلے مرحلے میں یورپی ٹرائیکا اور واشنگٹن دونوں نے اسلامی جمہوریہ ایران پر میزائل پابندیاں اٹھانے کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے مطابق یہ پابندیاں اٹھائی جا چکی ہیں)۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ایران کی میزائل پابندیاں ہٹانے میں ان کی رکاوٹ یقیناً مغرب اور تہران کے درمیان قانونی اور تکنیکی تنازعات کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گی۔ اس دوران اسلامی جمہوریہ ایران یقینی طور پر JCPOA دستاویز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی روشنی میں واشنگٹن اور یورپی ٹرائیکا کی جانبدارانہ تشریح کو تسلیم نہیں کرے گا۔ دوسرا نکتہ اس منظر سے متعلق ہے، جس پر مغرب عمل درآمد سے گریز کرتا ہے اور اس کے بجائے خود کو موجودہ حالات سے مستثنیٰ سمجھتا ہے۔ 2015ء میں JCPOA دستاویز پر دستخط کے بعد، ایران نے افزودہ یورینیم کے ذخائر اور افزودگی کی سطح کو کم کرنے اور کم از کم 15 سالوں کے لیے سینٹری فیوجز کی تعداد کو تقریباً دو تہائی تک کم کرنے کا عہد کیا۔
ایران نے یورینیم کو 3.67 فیصد سے زیادہ افزودہ نہ کرنے اور یورینیم کی افزودگی کی نئی تنصیبات یا نئے بھاری پانی کے ری ایکٹر نہ بنانے پر اتفاق کیا۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کو ایران کی طرف سے معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی اور تصدیق کے لیے ایران کی تمام جوہری تنصیبات تک باقاعدہ رسائی حاصل ہوگی۔ دوسری طرف اس معاہدے کے نتیجے میں، (جس پر ذمہ داروں کے ضمانتی دستخط تھے) ایران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، یورپی یونین اور امریکہ کی ثانوی پابندیوں ختم کر دی جائیں گی۔ تاہم براک اوباما کے دورِ صدارت میں، وائٹ ہاؤس اور کانگریس نے ایک غیر اعلانیہ لیکن واضح ہم آہنگی کے ذریعے، CATSA اور ISA قوانین کی تشکیل اور معاہدے کی از سر نو وضاحت جاری کی۔ دوسری طرف JCPOA کے آرٹیکل 29 کی بار بار خلاف ورزی میں (جس میں امریکہ کی طرف سے ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے کی راہ ہموار نہ کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کا ارتکاب کیا گیا) JCPOA کی روح کی ہی نہیں بلکہ "JCPOA کے متن” کی واضح خلاف ورزی کی گئی تھی۔
ایران میں "سرمایہ کاری” کا پراجیکٹ امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے بے نتیجہ رہا اور بنکنگ کے حوالے سے دی جانے والی رعائیتوں پر بھی عمل درآمد نہ ہوا۔ سوفٹ swift پر بظاہر پابندی ہٹا دی گئی تھی، لیکن پابندی عملی طور پر نافذ رہی اور بہت محدود لین دین کی اجازت دی گئی۔سینکڑوں بینکوں اور کریڈٹ کمپنیوں میں سے جو ایران کے متعلقہ اداروں کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم کرنے والے تھے، صرف چند یورپی بینکوں نے محدود اور ضروری لین دین کی صورت میں ایران کے سرکاری بینکوں کے ساتھ تعاون کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ ایٹمی معاہدے کی مشترکہ کمیٹی کو ایران کی طرف سے بار بار شکایات کی گئیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
امریکہ کی جانب سے دانستہ طور پر غلط بیانی کے پیش نظر یورپی ٹرائیکا کا نتیجہ صفر نکلا، جس کے نتیجے میں ایران کے احتجاج کو بے اثر کر دیا گیا۔ JCPOA معاہدے میں منفی میکانزم "ٹرگر میکانزم” بھی یورپیوں اور امریکہ کے غلط استعمال کا ایک عنصر بن گیا تھا۔ اب 2023ء میں ایٹمی معاہدے کی صورت میں عملی طور پر کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہے، جس کی منسوخی یا خلاف ورزی کے لیے مغرب کوئی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ 2018ء میں ٹرمپ JCPOA سے دستبردار ہوا اور ایران کے کم سے کم مفادات کی فراہمی کے حوالے سے یورپیوں کی عدم دلچسپی کے بعد ایٹمی معاہدہ عملی طور پر تباہ ہوگیا تھا۔
ایسی صورت حال میں یورپیوں کے سامنے یقینی طور پر دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ قانونی نقطہ نظر سے JCPOA کی منسوخی اور مکمل تباہی کی طرف بڑھنا یا پھر ایران مخالف پابندیوں کے حقیقی خاتمے کے ذریعے معاہدے میں عملی واپسی۔ یورپی ٹرائیکا اور واشنگٹن کے پاس یقینی طور پر کوئی اور آپشن نہیں ہوگا۔ ان دونوں آپشنز کا سامنا کرنے کے لیے ایران تیار ہے۔ البتہ امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔