(سید مجاہد علی)
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے ایک انٹرویو کے بعد تحریک انصاف نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ عمران خان کے بغیر کسی انتخاب کا تصور نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ نگران وزیر اعظم سے اپنے بیان کی وضاحت طلب کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ’ان کا بیان ریاست کے آئینی ڈھانچے، قومی مفادات اور جمہوریت کے بارے میں عدم حساسیت کا اظہار ہے۔ عمران خان کے بغیر کوئی بھی انتخاب ناقابل قبول، غیر قانونی اور غیر آئینی ہوں گے‘ ۔
اس سے پہلے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے نیویارک میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ’عمران خان کی شمولیت کے بغیر بھی ملک میں شفاف انتخابات منعقد ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے وہ کارکن جو سانحہ 9 کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث نہیں تھے، وہ انتخابی مہم چلا سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ نہ تو قانون کا راستہ روکیں گے اور نہ ہی عدالتوں کے فیصلوں میں مداخلت کریں گے۔ ایک بار الیکشن کمیشن انتخاب کی تاریخ کا اعلان کردے تو اسے تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی‘ ۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے جو باتیں کی ہیں، وہ اصولی اور قانونی طور سے ناجائز نہیں ہیں لیکن اس حوالے سے یہ اہم سوال بہر حال سامنے آتا ہے کہ اگر انوار الحق کاکڑ کی حکومت محض انتخابات کی نگرانی کے لیے قائم ہوئی ہے اور وہ عدالتی فیصلوں میں کسی بھی طرح فریق نہیں بنیں گے تو وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں کس ’حیثیت‘ میں گئے تھے۔ اور انہیں انتخابات میں کسی لیڈر کی شرکت اور دوسرے کی ملک واپسی پر اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں سوالات پر اظہار خیال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا نگران حکومت کے سربراہ امریکہ میں بیٹھ کر پاکستانی عوام کے علاوہ دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ملک میں جمہوری انتخابات تو ہوں گے لیکن دو اہم لیڈروں کو اس میں شرکت کی اجازت نہیں ہوگی؟
حیرت انگیز طور پر اس وقت صرف عمران خان کے حوالے سے ہی پریشانی یا بے یقینی موجود نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف کی لندن سے واپسی اور انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے بھی صورت حال واضح نہیں ہے۔ اس انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے اکتوبر میں نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ ’سابق وزیراعظم کے ساتھ پاکستان کے قوانین کے مطابق سلوک کیا جائے گا‘ ۔ عملی طور سے اس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم کے طور پر وطن واپس لوٹیں گے۔ اگر انہیں باقاعدہ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے عبوری ضمانت نہیں ملتی تو قانون کے مطابق وہ جب بھی لاہور اتریں گے، پولیس انہیں گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل پہنچانے کی ذمہ دار ہوگی۔ ابھی تک نہ تو مسلم لیگ (ن) نے اپنی قانونی حکمت عملی واضح کی ہے اور نہ ہی ابھی کوئی ایسا عدالتی اشارہ موجود ہے جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ نواز شریف کوئی خطرہ مول لیے بغیر ملک واپس آسکتے ہیں۔ واپسی پر مقدمات میں انہیں ضمانت بھی مل جائے گی اور العزیزیہ کیس میں ملنے والی سزا بھی معطل کردی جائے گی۔
نواز شریف نومبر 2019 میں شدید علالت کی وجہ سے عدالتی حکم پر چند ہفتے کے لیے لندن روانہ ہوئے تھے لیکن انہوں نے مسلسل وطن واپسی مؤخر رکھی ہے۔ اب ان کی واپسی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) گرمجوشی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ تاثر قائم کیا جا رہا ہے جیسے نواز شریف کی واپسی ملکی سیاست کا اہم ترین واقعہ ہو گا۔ لیکن عملی صورت حال بہرحال یہی ہے کہ وہ عدالتی حکم کے مطابق مفرور ہیں، ایک مقدمہ میں سزا یافتہ ہیں اور ان کی اپیلوں پر عدالتوں نے عدم حاضری کی وجہ سے کارروائی معطل کی ہوئی ہے۔ اب وہ جوں ہی وطن واپس آتے ہیں تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہو جائے گی۔ اس وقت متعلقہ عدالت پر منحصر ہو گا کہ انہیں قانونی رعایت دی جائے یا فی الوقت جیل واپس بھیجا جائے اور مقدمات کے خلاف اپیلوں پر عدالتی طریقہ کار کے مطابق کارروائی آگے بڑھے۔
گو کہ اس سے پہلے اسحاق ڈار کے حوالے سے حال ہی میں یہ عدالتی نظیر قائم کی گئی ہے کہ انہیں وطن واپس آتے ہی عبوری ضمانت مل گئی تھی اور ایک روز بعد عدالت میں پیش ہو کر انہوں نے باقاعدہ ضمانت حاصل کرلی اور اپنے خلاف قائم تمام سنگین مقدمات میں بری بھی ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ وہ تقریباً ایک سال تک شہباز شریف کی حکومت میں وزیٹر خزانہ کے طور پر کام بھی کرتے رہے۔ تاہم اگست میں یہ حکومت ختم ہونے اور قومی اسمبلی ٹوٹنے کے فوری بعد وہ واپس لندن چلے گئے۔ حالانکہ وہ سینیٹ کے رکن ہیں جو بدستور کام کر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کو بھی ایسی ہی سہولت حاصل ہو جائے گی اور وہ اطمینان سے پارٹی کی انتخابی مہم چلا سکیں گے؟ اس بارے میں فی الوقت کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ نواز شریف کا یہ بیان تشویش کا سبب بنا ہوا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے علاوہ سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس اور متعدد جج 2017 میں ان کے خلاف ’سازش‘ کے اہم کردار تھے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ اس سازش میں شامل عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
یہ بیان براہ راست ملکی فوج اور اعلیٰ عدلیہ کو للکارنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اس حوالے سے بے چینی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف لندن سے واپسی کے فوری بعد اسی لیے دوبارہ بھائی سے ملنے لندن جانے پر مجبور ہوئے تھے کیوں کہ یہ سخت بیان، اس مفاہمانہ سیاست کا گلا گھونٹ سکتا ہے، جس کا علم شہباز شریف نے اٹھایا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے انہیں اسٹبلشمنٹ کا ’چہیتا‘ ہونے کی شہرت حاصل ہے۔ نواز شریف کا بیان بظاہر تو ایک مزاحمتی بیانیہ بنانے اور پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے لیکن ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ ملکی اداروں کے لیے اس قسم کا سیاسی طرز عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک یہ مباحث شدت سے سننے میں آرہے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف ایسا سخت موقف اختیار کر کے کیا نواز شریف پاکستان واپس آسکتے ہیں اور کیا انہیں واقعی انتخابی مہم چلانے کی اجازت مل جائے گی؟
نگران وزیر اعظم نے عدالتی خود مختاری کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان کے بغیر انتخابات کے امکان کا اشارہ، اسی غیر واضح سیاسی صورت حال میں دیا ہے۔ اسی بیان میں انہوں نے نواز شریف کے حوالے سے بھی قانون کو بالادست قرار دیا ہے۔ انوار الحق کاکڑ کے بیان میں بین السطور پیغام کو سمجھا جائے تو وہ درحقیقت یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں انتخابات تو ہوں گے لیکن ان میں عمران خان اور نواز شریف شرکت نہ بھی کریں تو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ عمومی حالات میں یہ بیان قانون کی کتاب کے کے عین مطابق ہے۔ لیکن پاکستان کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں ہر وزیر اعظم اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ریاستی جبر کا نشانہ بنتا ہے اور جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی مفر نہیں ہے کہ اہم لیڈروں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمے قائم کیے جاتے ہیں اور سزائیں دلوائی جاتی ہیں۔ نواز شریف کا یہی دعویٰ ہے کہ انہیں سزا دلوانے اور نا اہل کرنے کا اہتمام اس لیے کیا گیا تھا تاکہ نام نہاد ’عمران پراجیکٹ‘ کامیاب ہو سکے اور مسلم لیگ (ن) کو 2018 کے انتخابات میں شکست سے دوچار کیا جائے۔
دیکھا جائے تو عمران خان کا بھی یہی موقف ہے۔ انہیں توشہ خانہ کیس میں غیر شفاف عدالتی کارروائی میں قید کی سزا دی گئی اور نا اہل قرار دیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے اس کیس میں ضمانت کے باوجود انہیں اٹک جیل سے رہا نہیں کیا گیا۔ بلکہ اب وہ سائفر کیس میں قید ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سانحہ 9 مئی میں ملوث ہونے کے الزامات میں مقدمہ چلانے کے اشارے بھی سامنے آئے ہیں۔ ملک میں 9 مئی کے واقعات کو ایک ایسا جرم قرار دیا جا چکا ہے جس میں کسی بھی قسم کی شرکت کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ انہیں ریاستی جبر اور نا انصافی کا سامنا ہے کیوں کہ وہ ملکی سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور اپنی منتخب حکومت کے خلاف ہونے والی سازش کو بے نقاب کرتے رہے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی بھی نواز شریف کی طرح سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی اپنے خلاف سازش کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ البتہ جنرل باجوہ کو جنوری 2020 میں تین سالہ توسیع دینے کے لیے ان دونوں پارٹیوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
انوار الحق کاکڑ کے بیان کے خلاف تحریک انصاف کا احتجاج تو قابل فہم ہے لیکن اس دلیل کا کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ اگر عمران خان کو انتخاب میں حصہ لینے کا موقع نہ ملا تو یہ اقدام ’ناقابل قبول ہی نہیں بلکہ غیر قانونی اور غیر آئینی‘ بھی ہو گا۔ نہ جانے پی ٹی آئی کسی انتخاب میں ایک سزا یافتہ لیڈر کی عدم شرکت کو کیسے اور کیوں کر غیر قانونی اور غیر آئینی ثابت کرے گی۔ البتہ جوابی بیان سے یہ تاثر بھی سامنے آیا ہے کہ اگر عمران خان کو انتخابی مہم چلانے کا موقع نہ دیا گیا تو شاید تحریک انصاف انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہو جائے۔ کیا پارٹی مستقبل میں اپنی سیاسی صلاحیت محفوظ رکھنے کے لیے واقعی بائیکاٹ کے آپشن پر غور کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ سکے گا۔
اگر عمران خان کے ساتھ ہی ساتھ نواز شریف کو کوئی سیاسی رعایت نہ ملی، نہ ان کی نا اہلی ختم ہو سکی اور نہ فوری طور سے سزا سے نجات ملی۔ اور وہ انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہے تو ملک میں درحقیقت ایسے انتخابات منعقد ہوں گے جن میں دو مقبول لیڈر شریک نہیں ہوں گے۔ یہ سوال ملک کے تمام حلقوں کو پریشان کرتا رہے گا کہ یہ انتخابات کس حد تک شفاف ہوں گے اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کس حد تک مستحکم اور عوام کی نمائندہ کہلا سکے گی۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔