پیر , 4 دسمبر 2023

حکومت کی جانب سے طوری قبائل کا اقتصادی اور سیاسی مقاطعہ

(تحریر: ایس این حسینی)

اہلیان کرم کو کچلنے، یہاں سے بیدخل کرنے بلکہ مکمل طور پر ختم کرنے پر مبنی پر اقدامات عشروں سے جاری و ساری ہیں۔ آمر مطلق ضیاء الحق کی جانب سے 80 کی دہائی میں خاص طور پر 1987ء میں مجاہدین اور مہاجرین کی شکل میں اہلیان کرم کے ایک ماہ تک محاصرے اور درجنوں دیہات کے جلاؤ گھیراو، 1996ء میں طالبان کی شکل میں یلغار اور مہینوں محاصرے اور ناکہ بندی کے بعد 2000ء کی دہائی میں طالبان، داعش اور القاعدہ کی شکل میں علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر مبنی اقدامات کی ایک طویل داستان اور فہرست تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ جس کا تذکرہ باعث طوالت ہوگا۔ چنانچہ صرف نظر کرتے ہوئے آجکل کے حالات خصوصاً ناجائز ایف آئی آر کٹوانے کی حقیقت پر بات کرتے ہیں۔

ضلع کرم میں آباد قبائل میں سے بعض لوکل اور یہاں کے مستقل باشندے ہیں۔ وہ کون ہیں، ہم نہیں کہہ سکتے، بلکہ اس کا پورا ریکارڈ سرکار دولتمدار کی جیب میں پڑا ہے، جبکہ یہاں آباد قبائل میں سے بعض افغانی الاصل ہیں، وہ کون ہیں، یہ بھی ہم نہیں بتا سکتے، بلکہ حقیقت تک پہنچنے کیلئے تاریخ کی طویل ورق گردانی کی بجائے گوگل پر سرچ فرمائیں کہ کرم میں کن اقوام کے لوگ پاکستان اور افغانستان دونوں طرف آباد ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ ان لوگوں کے مفادات پاکستان سے زیادہ افغانستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان پاکستانی اور افغانی قبائل کے مابین عشروں سے زمین اور پہاڑ پر تنازعات چلے آرہے ہیں۔ خالص اور محب وطن پاکستانی قبائل (جن میں طوری بنگش شیعہ سنی دونوں شامل ہیں) کا موقف ہے کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق انکا فیصلہ سرکار کرے، جبکہ پاکستان مخالف طالبان نواز افغانی الاصل قبائل کا موقف ہے کہ وہ کاغذات مال کو نہیں مانتے، کیونکہ یہ انگریز کے تیار کردہ ہیں۔

حکومت دونوں کو ناراض نہیں کرتی۔ معروف پشتو مثل (نہ ئے ابا لخکر ماتوی، نہ ئے ادے) کے مصداق دونوں کو خوش رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جس کے باعث ہر سال لڑائی ہوتی ہے، جو سینکڑوں جانوں کے ضیاع کے علاوہ کروڑوں روپے کے نقصان پر منتج ہوتی ہیں۔ دراصل راضی رکھنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اصل مالک کو اس کا حق دینا یا دلانا سرے سے چاہتی ہی نہیں۔ کیونکہ ان کی ہمدردیاں جارح اور ناجائز فریق کے ساتھ ہیں۔ مگر شرافت دکھاتے ہوئے کھلم کھلا ناجائز فریق کا ساتھ بھی نہیں دیتی۔ ان کے پاس ایک مخصوص حربہ بلکہ ننگی تلوار موجود ہے، جسے وہ ہر وقت مظلوم اور حقدار فریق کے خلاف استعمال کرتی ہے، وہ ہے ایف آئی آر کا اندراج۔

کرم میں جب بھی کوئی لڑائی ہوئی ہے تو پہل ہمیشہ افغان قبائل ہی نے کی ہے۔ مگر شومئ قسمت یہ کہ مقامی حکومت اسے طوری بنگش قبائل کے کھاتے میں ڈال کر حکام بالا کو فارورڈ کرتی ہے۔ نیز مقامی سطح پر ذمہ دار اور مقتدر افراد کے اشاروں پر طوری بنگش قبائل کے تمام اہم افراد پر ایف آئی آر کاٹی جاتی ہیں۔ ایف آئی آر بھی کیسے کہ کسی دوسری تحصیل یا تھانے میں بیٹھا ایک ایس ایچ او ایک غیر متعلقہ علاقے کے غیر متعقلہ فرد پر ایف آئی آر کاٹتا ہے۔ ایس ایچ او سے جب اس ناانصافی کا جواب مانگا جاتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے کہ مجھے کچھ بھی پتہ نہیں، لکھی اور تیار رپورٹ دی گئی اور میرے دستخط زبردستی حاصل کئے گئے۔ یہ ہے یہاں کی حکومت اور یہ ہے اس کا قانون۔ جس کی وجہ سے اہلیان کرم ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ درست رپورٹ بروقت آگے نہ پہنچ پانے اور غلط ایف آئی آر کے اندراج کے باعث مقامی لوگ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

چند ماہ قبل لڑی جانے والی لڑائیوں اور اس کے بعد واقعات کی ضمن میں راقم الحروف سمیت طوری بنگش قبائل کے تقریباً 400 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں۔ صرف ایف آئی آر کاٹنے پر ہی منحصر نہیں، بلکہ ان کے خلاف خونی چھاپے بھی مارے جاتے ہیں، جس میں ملزمان کے خلاف مسلح کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ فی ملزم اوسط خرچہ 30000 روپے حساب کیا جائے تو یہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے بنتا ہے۔ اتنا مالی نقصان پہنچا کر مخالف فریق کو آٹومیٹیکلی نفع دیا جا رہا ہے۔ جسے حکومت کی جانب سے ایک سیاسی اور اقتصادی مقاطعہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس طریقے سے ان کے زیر عتاب ان محب وطن پاکستانیوں کو ان کی نظر میں اقتصادی اور سیاسی طور پر مفلوج کیا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ رویہ صرف طوری قبائل ہی کے خلاف ہے، جبکہ طوری بنگش قبائل کے سرکاری اساتذہ کو بیدردی سے قتل کرنے میں ملوث سینکڑوں معلوم افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ محدودے چند افراد کے خلاف برائے نام ایف آئی آر کاٹی گئیں، مگر ان کے خلاف خونی نہیں، بلکہ مہذب چھاپے بھی نہیں مارے گئے، بلکہ اس حوالے سے یہ بہانہ رچایا گیا کہ وہ افغانستان فرار ہوگئے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو بھی اس کا مطلب یہی ہے کہ ان قبائل کے محفوظ ٹھکانے سرحد پار موجود ہیں۔ جنہیں قانون کے احاطے میں لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ جو پہلی عبارت میں لکھے دعوے ہی کو تقویت دیتا ہے کہ یہ اقوام افغانی الاصل ہیں اور ان کے مفادات پاکستان سے زیادہ افغانستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …