پیر , 4 دسمبر 2023

روسی وزیر خارجہ کا دورہ ایران اور دوطرفہ فوجی تعلقات

(تحریر: محمد امامی)

تقریباً ایک ماہ قبل ایران کی بری افواج کے سربراہ امیر کیومرث حیدری کی سربراہی میں ایران کے ایک اعلی سطحی فوجی وفد نے روس کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ماسکو میں آرمیا 2023ء فوجی نمائش گاہ بھی منعقد ہوئی اور دونوں ممالک میں "فوجی تعاون کیلئے رابطوں کی سطح بڑھانے” کیلئے ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ ابھی روس کے وزیر دفاع سرگے شویگو نے ایران کا دورہ کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون اور تعلقات ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ روسی وزیر دفاع کے ہمراہ ایک اعلی سطحی فوجی وفد بھی ایران آیا ہے۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران ان کا یہ پہلا دورہ ہے لہذا اسے اپنے ایجنڈے اور ممکنہ نتائج کے لحاظ سے بہت زیادہ اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران اور روس کے درمیان فوجی تعاون پر اس دورے کے کیا اثرات ظاہر ہوں گے؟

ایرانی اور روسی حکام کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات کی روشنی میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ روسی وزیر دفاع کا حالیہ دورہ تہران دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات کے فروغ میں بہت اہم کردار کا حامل ہے۔ روس کی وزارت دفاع نے اس دورے کے بارے میں بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیر دفاع کی ایران موجودگی دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات مزید مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو گی اور دوطرفہ تعلقات اہم مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بین الاقوامی تنظیموں کیلئے روس کے مستقل نمائندے میکائیل الیانوف نے بھی اس بارے میں سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایران کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باقری کی جانب سے روسی وزیر دفاع کے استقبال کی ویڈیو شائع کی اور لکھا: "ایران ہمارا پڑوسی اور شریک ہے۔ فوجی حکام سمیت ہر سطح پر گفتگو ضروری ہے۔”

دوسری طرف اس ملاقات میں ایران کے چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی روسی وزیر دفاع جیسا موقف اپناتے ہوئے دونوں ممالک کے حکام کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے پختہ عزم کی خبر دی اور روس کے ساتھ تعلقات میں نئے افق سامنے آنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ جنرل باقری نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایران اور روس کے درمیان فوجی تعلقات کے نئے باب کھل جانے پر زور دیا اور علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں اسے ضروری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ ایک عشرے کے دوران ایسے حالات رونما ہوئے جن کے باعث تہران اور ماسکو مشترکہ جیوپولیٹیکل مفادات کی بنیاد پر ایک ان لکھے اتحاد کی جانب آگے بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس اتحاد کی تشکیل میں اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب شام کے خلاف مغربی عربی محاذ تشکیل پایا۔

یاد رہے فروری 2011ء میں جب شام شدید سکیورٹی بحران کی لپیٹ میں آیا تو ایران اور روس نے ایک نئے اسٹریٹجک اتحاد کی بنیاد رکھی۔ دونوں ممالک نے شام میں تکفیری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کامیاب باہمی تعاون انجام دیا۔ یہ تکفیری دہشت گردی مغربی طاقتوں کی حمایت سے خطے میں ایک کینسر کی مانند پھیل رہا تھا۔ امریکہ کی سربراہی میں مغربی طاقتیں تکفیری دہشت گردی کی بھرپور حمایت کر رہی تھیں تاکہ اس کی مدد سے مغربی ایشیا میں طاقت کا توازن اپنے حق میں تبدیل کر سکیں۔ شام میں سامنے آنے والے تکفیری فتنے کا مقصد علاقائی حریف ایران اور عالمی حریف روس کو کمزور کرنا تھا۔ 2015ء میں تاریخ میں پہلی بار ایران، روس، شام اور عراق نے بغداد میں مشترکہ انٹیلی جنس مرکز تشکیل دیا جس کا مقصد تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف ہم آہنگ اقدامات انجام دینا تھا۔

اگرچہ شام کی مرکزیت میں خطے میں جنم لینے والے سکیورٹی بحرانوں کا نتیجہ ایران اور روس کے درمیان تعلقات میں نیا باب تشکیل پانے کی صورت میں ظاہر ہوا لیکن یوکرین جنگ اور مغربی ممالک کی جانب سے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان بھی ایران اور روس کے درمیان زیادہ سے زیادہ قریبی تعلقات جنم لینے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ اس صورتحال میں ماسکو عالمی سطح پر گوشہ نشینی اور شدید اقتصادی دباو سے باہر نکلنے کیلئے اپنے اتحادیوں پر زیادہ بھروسہ کر رہا ہے جبکہ ایران جو خود امریکہ اور مغربی ممالک کی ظالمانہ پابندیوں کا شکار ہے اس کیلئے ایک قابل اعتماد اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ مزید برآں، ایران روس کیلئے اس لئے بھی اہم ہے کہ خلیج فارس اور گرم پانیوں تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ روسی وزیر دفاع کے حالیہ دورہ تہران میں دونوں ممالک کے درمیان طویل المیعاد تعاون کا معاہدہ بھی طے پایا ہے۔

اگرچہ مغربی طاقتیں اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے پروپیگنڈا کر کے ایران اور روس میں بڑھتے فوجی تعاون کو یوکرین جنگ سے گرہ لگانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس بہانے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کی جانب سے عائد کردہ اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران دفاعی صنعت کے میدان میں خودکفیل ہے اور اب وہ اپنی فوجی مصنوعات دنیا کے دیگر ممالک کو برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ایران کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باقری نے طویل المیعاد فوجی ہمکاری کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے کہا: "یہ معاہدہ فوجی اور دفاعی لحاظ سے بہت اہم پہلووں پر مشتمل ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان طویل المیعاد فوجی تعاون کی راہ ہموار ہو جائے گی۔”بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …