(محمد علی یزدانی)
ایک جانب کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے جس پر بھارت اور خصوصاً مودی سرکار بڑے غصے میں ہے لیکن مغربی دنیا کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ مودی سرکار ایک انتہا پسند حکومت ہے جس کا مقصد ہی قتل و غارت گری کے ذریعے اپنی حکومت کو دوام دینا ہے۔ مودی کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ دنیا کیا کہہ رہی ہے اس کا ٹارگٹ ہندو انتہا پسند ہیں اور ان کو خوش کرنے کیلئے وہ کبھی مسلمانوں کو شہید کرتا ہے تو کبھی سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانے پر رکھتا ہے۔مغربی دنیا کو بھی آنکھیں کھولنی چاہئیں اورسمجھنا چاہئے کہ پاکستان جو ایک عرصے سے بھارتی دہشت گردی کے متعلق دنیا کو خبردار کر رہا ہے وہ غلط نہیں تھا۔بھارت ہی ہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا تھا، کبھی کشمیر میں تو کبھی گجرات میں تو کبھی اتر پردیش میں مسلمانوں کو شہید کیا جاتا ہے اور اب بھارتی پنجاب میں سکھوں پر بھی مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جس پر سکھوں نے بھی خالصتان تحریک کو تیز کر دیا ہے جس کی وجہ سے مودی حکومت نے بوکھلاہٹ میں کینیڈا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کرایا جو لگتا ہے کہ اب اس کے گلے پڑنے والا ہے۔
اب ذرا پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کا تذکرہ کر یں تو الیکشن کمیشن نے جنوی کے آخری ہفتے میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں، ایسے میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جنوری 2024ء میں ہونے والے الیکشن چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر بھی منصفانہ ہوں گے۔ان کا یہ بیا ن لگتا ہے پی ٹی آئی کو ناگورا گزرا ہے جس پر پی ٹی آئی کہتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر ہونے والے الیکشن منصفانہ ہو ہی نہیں سکتے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے بلکہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کیسے الیکشن لڑ سکتے ہیں انہیں عدالت نے توشہ خانہ میں پانچ سال کی سزا کے ساتھ پانچ سال کیلئے نا اہل بھی کر دیا ہے۔ محمد علی درانی بھی آج کل متحرک ہیں اور پی ٹی آئی کے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، کیا پی ٹی آئی مائنس چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر چل سکے گی؟ ماضی میں سیاسی رہنماؤں نے جیل سے بھی الیکشن لڑے ہیں، کیا چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن بھی نہیں لڑنے دیا جائے گا،دوسری جانب پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ چیئرمین کے بغیر کوئی بھی الیکشن قابل قبول نہیں، تو پھر الیکشن نتائج پر نیا تنازع ہو گا؟چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے بھی دیا جاتا ہے تو وہ پانچ سال کیلئے توشہ خانہ کیس میں نا اہل ہیں، کیا ان کی سزا معطل کر کے انہیں الیکشن لڑنے دیا جائیگا؟۔ خیر یہ تو آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔
ادھر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے چار سال بعد لندن سے وطن واپسی کی حتمی تاریخ یعنی 21اکتوبر کو وطن واپسی کا اعلان کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پھر سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنا لیا ہے جس پر سیاسی حلقے حیران ہیں کہ وہ ایک بار پھر طاقتور حلقوں سے بگاڑ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں مسلم لیگ ن نے طاقتور حلقوں کی حمایت سے ہی حکومت بنائی اور اب تو رانا ثناء اللہ اپنے انٹر ویوز میں متعدد بار اس کا اقرار بھی کر چکے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ نوازشریف دوبارہ سے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اس لئے اپنا رہے ہیں کہ عوامی حمایت حاصل کر سکیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان سے چھین لی ہے، اور پھر کیا ان کی اپنی پارٹی اس بیانیے کو اپنائے گی اور کیا نوازشریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کیلئے پارٹی کو راضی کر لیں گے؟شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی جنرل باجوہ کو سزا دینے کا مطالبہ کریں گے یا وہ الگ لائن اپنائیں گے، اور اگر ماضی کی عسکری شخصیات کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیاجاتا ہے تو کیا ن لیگ نے ان شخصیات کی مدد سے حکومت حاصل نہیں کی، کیا انہوں نے جمہوری روایات پر عمل کیا یا جمہوری روایات سے رو گردانی کی پھر اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور ان کی تہہ تک پہنچا جائے گایہ وہ اہم سوالات ہیں جو حل طلب ہیں۔
عالمی حوالوں سے ملکی حالات کا جائزہ لیں تو ایک بار پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ اگر سعودی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو پھر پاکستان بھی تسلیم کر لے گا، جبکہ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کا حق دیئے جانے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور فلسطینیوں کا جائز حق یہی ہے کہ انہیں قبلہ اول اور یروشلم واپس دیا جائے اور ان کا جائز حق انہیں دیا جائے۔ماضی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کی باتیں کی جاتی رہیں ہیں اور اب ایک بار پھر لگتا ہے جان بوجھ کر اس طرح کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں تا کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔