(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)
اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاسوں کا انعقاد مختلف ممالک کے سیاسی رہنماؤں اور سفارتی حکام کے لیے ہمیشہ ایک بہت اچھا موقع ہوتا ہے کہ وہ مختصر وقت میں دوسری حکومتوں کے ساتھ گہری اور متعدد سفارتی ملاقاتیں کریں اور سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کریں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس سے قبل غیر سرکاری خبروں میں ایران اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان مشترکہ علاقائی اجلاس منعقد ہونے کے امکان کا ذکر کیا گیا، جس میں عراق کی موجودگی سے مثبت علاقائی تعاون کو آگے بڑھانے کے امکانات تھے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی سمجھوتے کے بعد تہران اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
ایک ایسا اقدام جس کی تجویز سب سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے دی تھی اور ایران نے اس کا خیرمقدم کیا تھا۔ خلیج فارس تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل "جاسم البدوی” اور امیر عبداللہیان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں جو کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ہوئی، اس اجلاس کے انعقاد پر تاکید کی گئی تھی۔ بعض ذرائع ابلاغ نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اجلاس سلامتی کونسل کی قرارداد 598 کی شقوں کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی زیر صدارت علاقائی مذاکراتی فورم کے نام سے ہونا تھا، لیکن آخری لمحات میں یہ اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔ بعض ذرائع ابلاغ کے مطابق، "خلیج فارس تعاون کونسل کے بعض رکن ممالک نے اس اجلاس کے انعقاد کے مقاصد اور وقت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا، جن میں عراق اور کویت کے درمیان سمندری سرحدوں پر گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے تنازعات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک معاہدہ "خور عبداللہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے اہم بات امریکہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے ارکان کے درمیان مشترکہ اجلاس کا انعقاد ہے، جو اس اجلاس کی منسوخی کا باعث بنا۔ ایران اور خلیج فارس تعاون کونسل کے درمیان ہونے والے اجلاس کا مقصد ایران اور عرب مملک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنا کر خطے میں سیاسی صورت حال کو مستحکم بنانا تھا جبکہ امریکہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کا نتیحہ افتراق اور اختلاف کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے ارکان کے درمیان مشترکہ اجلاس، علاقائی کشیدگی میں کمی اور تمام شعبوں میں تعاون کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اعتماد کو مضبوط کرنے کے طریقوں کی تلاش کے بارے تھا اور اس میں خاص طور پر ایران کی تجویز ڈائیلاگ اور کوآپریشن فورم کے قیام کا جائزہ لینے کے لئے تھا، لیکن امریکہ کے ساتھ ان ممالک کے مشترکہ اجلاس کا حتمی بیانیہ وہی اختلافی ڈھول کو پیٹنا تھا۔
امریکہ کی سربراہی میں مشترکہ اجلاس کا اختتامی بیانیہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایران اور خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس میں خلل ڈالنے میں امریکہ کا بنیادی کردار تھا۔ امریکہ کی سربراہی میں مشترکہ اجلاس کے اس بیان میں، اگرچہ وائٹ ہاؤس نے امن پسندی کا روپ دھارتے ہوئے ایران کے ساتھ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر رکن ممالک کے سفارتی رابطوں کا خیر مقدم کیا گیا ہے، لیکن اس نے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اس کے بالکل برعکس موقف اختیار کیا ہے۔ ایران کے پرامن جوہری پروگرام، خلیج فارس میں ایران کے تین جزیروں کے بارے میں متحدہ عرب امارات کے جھوٹے دعووں سمیت امریکہ نے تمام ممکنہ اختلافات کو اس اجلاس میں ہوا دینے کی کوشش کی۔
اگرچہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک اور امریکہ کا مشترکہ اجلاس گذشتہ برسوں کے دوران بھی اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوا ہے اور یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے، لیکن اس بار واشنگٹن نے اختلافات کو اجاگر کرنے کا خصوصی طور پر انتخاب کیا ہے۔ حالیہ میٹنگ میں خلیج فارس کے ممالک اور ایران کے درمیان تعلقات کو اختلافات میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، کیونکہ خلیج فارس میں کشیدگی میں کمی امریکی مفاد میں نہیں ہے۔ خلیج فارس کے حساس اور جیو اسٹریٹجک خطے میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجی موجودگی اور ایرانو فوبیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت امریکی ترجیحات میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کی پالیسی ایران اور عربوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو تباہ کرنا ہے۔
ادھر صیہونی حکومت کی خواہش ہے کہ وہ عرب ممالک کو چین اور روس کی طرف بڑھنے سے روکے۔ امریکہ نے عرب ممالک کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے اور مستقبل میں اپنے اتحادیوں کے مفادات کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہوئے خلیج فارس میں فوجی موجودگی کو جاری رکھنے پر زور دیا ہے اور اپنےاتحادیوں کے مخالفین سے نمٹنے کے لیے تعاون کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اس اجلاس کے بیان میں خود مختاری، ارضی سالمیت کے خلاف خطرات، علاقائی اور دیگر غیر مستحکم سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ "خطے میں بحری سرگرمیوں کی آزادی اور سمندری سلامتی کو یقینی بنانے پر تاکید کی گئی ہے۔
دریں اثناء، اقوام متحدہ میں مذکورہ بالا اجلاس کی منسوخی کے بعد ایران اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کا موقع موجود ہے اور مختلف رہنماؤں نے اس کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔ علاقائی ممالک امریکہ کے دوہرے کردار سے مطمئن نہیں ہیں، لیکن امریکہ وقتی طور پر ہی سہی، اپنی سازش میں کامیاب رہا ہے، البتہ اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ طویل مدتی منصوبہ بندی میں امریکہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کا سب شکار ہیں اور آہستہ آہستہ سب اس سے آشنا ہو رہے ہیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس کو منسوخ کرکے اپنی بدنیتی کا اظہار کیا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بالخصوص خطے کے ممالک اپنے مفاد کے لئے اسکا ازالہ کریں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔