(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)
ہوسکتا ہے کہ ہم دنیا سے پیچھے ہوں، لیکن اس لیے نہیں کہ ٹیکنوکریٹس اور تقلیدی اذہان کے مالک مختلف ماہرین عمرانیات یا سیاسیات ہمیں مسلسل بتاتے رہے ہیں۔ اس تصویر کو غور سے دیکھیں (https://t.me/farhikhteganonline/171764) اس تصویر میں ہنری کسنجر یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ کسنجر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اس دور میں کوئی نیا شخص نہیں ہے، انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک امریکی خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کیا ہے، وہ سرد جنگ اور سرد جنگ کے بعد کے دور کو اچھی طرح جانتے ہیں، انہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے۔
مختلف ماہرین خاص طور پر لبرل ٹیکنو کریٹس ہمیں جس تشریح کے ساتھ اندر کی خارجہ پالیسی کے بارے بریفنگ دیتے ہیں، اس کے مطابق خارجہ پالیسی ٹیکنالوجی کو تیار کرنے، درآمد کرنے اور تجارتی معاہدوں کو انجام دینے کے لیے ایک قسم کا معاشی ہتھیار ہے! کیا کسنجر اپنے سوویں سال میں زیلنسکی سے ملاقات میں ایسی کامیابیوں کی تلاش میں ہے؟ ان کے مدنظر وہ خارجہ پالسی ہے، جس کی تعریف خاص طور پر لبرل ٹیکنو کریٹس کرتے ہیں۔؟ جواب واضح ہے، کیسنجر کا مسئلہ یقیناً اس طرح نہیں ہے، وہ دنیا میں امریکنائزیشن کو جاری رکھنے کے لیے زیلنسکی سے ملنے گیا۔
کسنجر بخوبی جانتا ہے کہ روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے اگلے دن دنیا امریکہ کی معاشی اور تکنیکی طاقت پر توجہ نہیں دے گی۔ یوکرین کی ناکامی امریکہ کے نظریئے کی شکست ہوگی۔ یہ شکست ایک ڈومینو ہوگی، جو کئی شکستوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ 100سال کی عمر میں بھی کیسنجر اپنے ملک کو سپر پاور بنانے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خارجہ پالیسی کا مطلب نظریہ اور نظریئے کی برتری قائم کرنا ہے، اسے محض چند معاشی تصورات تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
کسنجر اور زیلنسکی کی یہ تصویر دنیا کی حالت کی نشاندہی کرتی ہے اور کسنجر اچھی طرح جانتے ہیں کہ روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے اگلے دن دنیا صرف امریکہ کی اقتصادی اور تکنیکی طاقت پر توجہ نہیں دے گی اور اس جنگ کی ناکامی کی صورت میں یوکرین دنیا میں امریکنائزیشن کے نظریئے کو ختم کرنے کے لیے ایک ڈومینو کا کام کرے گا، چنانچہ 100 سال کی عمر میں بھی وہ اپنے ملک کو سپر پاور بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کسنجر امریکہ میں اپنے دفتر میں بیٹھ کر ایک مضمون بھی لکھ سکتا تھا کہ ہمیں یوکرین کی جنگ میں شرکت کی بجائے ٹیکنالوجی کی ترقی یا اپنی برآمدات بڑھانے پر توانائی خرچ کرنی چاہیئے اور یوکرین میں فوجی مداخلت نہیں کرنی چاہیئے، لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ طاقت صرف ان چیزوں تک محدود نہیں ہے، وہ خارجہ پالیسی کو ایک نظریئے کے تحت ایک سپر پروجیکٹ سمجھتا ہے۔ کیسنجر صرف معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی کی پیشرفت کو خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار نہیں دیتا۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔