پیر , 4 دسمبر 2023

ایک نیا اسٹریٹجک معاہدہ

(تحریر: کاظم صادقی)

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بحرین کے وزیراعظم کے ساتھ ایک اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو امریکہ کو اقتصادی جہتوں کے علاوہ منامہ کی سکیورٹی کی صورت میں مدد کرنے کا پابند بناتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایک امریکی اہلکار نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس معاہدے کا مقصد علاقائی سطح پر ڈیٹرنس کو مضبوط بنانا اور خطے میں مشترکہ فضائی اور دفاعی میزائل سسٹم کے قیام کے راستے کو مضبوط کرنا ہے۔ بحرین کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کا مقصد منامہ کے اقتصادی اور سیاسی انضمام میں مدد کرنا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب امریکہ نے کسی عرب ملک کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت واشنگٹن کو بحران کے وقت اس ملک کو "فوجی اور سکیورٹی سپورٹ” فراہم کرنی ہوگی۔ امریکہ اور بحرین کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر دستخط کو خلیج فارس کے علاقے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے اور اس معاہدے کے مطابق علاقائی تعلقات میں بھی تبدیلی آئے گی۔ بحرین کو خلیج فارس میں امریکہ کا روایتی اتحادی سمجھا جاتا ہے، اور 1990ء کی دہائی سے بحرین خلیج فارس میں امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کی میزبانی کر رہا ہے، یہاں تک کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بحرین کو "ریاستہائے متحدہ کا "نان نیٹو اتحادی” کہا تھا۔

امریکا اور بحرین کے سکیورٹی معاہدے کو صرف دو طرفہ نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیئے بلکہ یہ معاہدہ نئی علاقائی مساوات کا حصہ ہے اور نارملائزیشن کے نام پر خطے کے لیے واشنگٹن کے بڑے منصوبے کے عین مطابق ہے۔ درحقیقت مذکورہ معاہدہ ایک ایسا اقدام ہے، جس کا مقصد صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے سعودیوں کی توجہ کو جذب کرنا ہے۔ چند ماہ قبل امریکہ نے سعودی عرب کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی، لیکن اعلیٰ ترین امریکی سیاسی عہدیداروں کے ریاض اور تل ابیب کے متعدد دوروں کے باوجود امریکہ کو مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔

اس دوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ امریکہ سے تمام حفاظتی ضمانتوں کی درخواست کرے۔ واشنگٹن کے ساتھ مناما معاہدے کے بعد امریکہ کی طرف سے ریاض کو یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ بھی اس طرح کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کو توقع ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کا سکیورٹی معاہدہ بحرین کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیئے، جو "سکیورٹی اور فوجی حالات میں حمایت کے عزم سے کہیں زیادہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں ریاض چاہتا ہے کہ واشنگٹن نیٹو کے آرٹیکل 5 (اجتماعی سلامتی) کی طرح کے سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرے یا ایسا معاہدہ ہو، جو کم از کم جاپان یا جنوبی کوریا کی طرح امریکہ کو سعودیہ کی فوجی مدد فراہم کرنے کا پابند بنائے، تاکہ جب بھی سعودی عرب کو کسی فوجی حملے کی دھمکی کا سامنا ہو تو امریکہ اس کی مدد کے لیے مداخلت کرے۔

یہ ایسی صورت حال میں ہے، جب امریکیوں کے مطابق ایسا معاہدہ مشرق کی طرف توجہ اور چین پر قابو پانے کی سمت میں ان کی بڑی حکمت عملی کے خلاف ہوگا، کیونکہ اس سے واشنگٹن مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں مزید ملوث ہو جائے گا۔ اسی تناظر میں تل ابیب میں سابق امریکی سفیر ڈینیل کروتھرز نے فارن افئیر نامی مجلہ میں ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کو خطے میں کسی بھی ایسے نئے سکیورٹی معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہیئے، جو واشنگٹن کو خطے میں مداخلت پر مجبور کرنے کا باعث بنے۔ دوسری طرف امریکی یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ سعودی عرب آل خلیفہ کی طرح ایک اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر کام کرے اور اقتصادی، تکنیکی اور تجارتی شعبوں میں چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے گریز کرے۔

سعودی عرب چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 80 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ چین سعودی عرب میں 5 جی ٹیکنالوجی برآمد کر رہا ہے، جو واشنگٹن کو ہرگز پسند نہیں۔ اس کے علاوہ روس کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے بارے میں بھی امریکہ کو شدید اعتراض ہے اور یوکرین کی جنگ کے دوران OPEC+ میں ریاض کے ساتھ ماسکو کا تعاون اس بات کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ دونوں مسائل امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک سکیورٹی معاہدے کو انجام دینے میں رکاوٹیں بن سکتے ہیں۔ درحقیقت بحرین کے ساتھ امریکی سکیورٹی معاہدہ خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کا مطلوبہ نمونہ اور خطے کے مستقبل کے لیے اس ملک کا نیا ورژن ہے۔ بیجنگ کے ساتھ منافع بخش تجارت کے تناظر میں امریکہ کو شدید تحفظات اور رکاوٹیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے لئے "بحرین امریکی ماڈل” جیسے اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کرنا مشکل ہوجائیگا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …