(تحریر: سید رضا میر طاہر)
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ میں داخل ہو رہی ہے اور دنیا پر "تباہی” کے سائے تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انتونیو گوٹیرس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے آخری دن کہا ہے کہ "نئے ہتھیاروں کی ایک خطرناک دوڑ شروع ہو رہی ہے اور جوہری ہتھیاروں کی تعداد گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں پہلی بار بڑھ سکتی ہے۔” دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کو "پاگل پن” سے تعبیر کرتے ہوئے، گوٹیرس نے کہا: "جوہری ہتھیاروں کا کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ، کسی بھی تناظر میں استعمال، انسانی تباہی کا باعث بنے گا اور ہمیں اپنا راستہ بدلنا ہوگا۔”
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دنیا نے ایک طویل عرصہ جوہری ہتھیاروں کے سائے میں گزارا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دنیا کے ممالک پر زور دیا کہ وہ تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں میں اضافہ اور زیادہ سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے استعمال کے لیے بڑھتے ہوئے مسابقت نے عالمی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں روس اور امریکہ کے درمیان تصادم اور ماسکو کی طرف سے امریکہ کی قیادت کو ایٹمی دھمکی کے تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا جوہری انتباہ معنی خیز ہے۔
درحقیقت یوکرین کی جنگ کے دوران یعنی سرد جنگ کے بعد کے دور میں دنیا کو پہلی بار ایٹمی جنگ کے ڈراؤنے خواب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روس نے یوکرین کی جنگ کے دوران امریکی قیادت کو مغرب بالخصوص نیٹو کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے جوہری تباہی کے واقع ہونے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے تازہ ترین مؤقف میں، روسی سلامتی کونسل کے نائب اور اس ملک کے سابق صدر، دمتری میدویدیف نے نیٹو کو "بڑے جہتوں کے ساتھ ہٹلر کی طرح ایک واضح فاشسٹ بلاک میں تبدیل کرنے” کے بارے میں بات کی اور کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو روس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں انسانیت کو 1945ء (دوسری جنگ عظیم) کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔
جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا معاہدہ (این پی ٹی)، جو 1970ء سے نافذ العمل ہے، دنیا میں ہتھیاروں کے کنٹرول کے موجودہ معاہدوں میں سب سے زیادہ اہم ہے اور اس پر 191 سے زائد ممالک نے دستخط کئے ہیں۔ این پی ٹی معاہدے کے نفاذ کے بعد سے جوہری تخفیف اسلحہ اور ان مہلک ہتھیاروں کو تلف کرنے کی کوششوں کا معاملہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ تاہم اس معاہدے کو خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کے مالکان نے بہت زیادہ نظر انداز کیا ہے۔ درحقیقت "این پی ٹی” معاہدے پر عمل درآمد کے چیلنجوں میں سے ایک جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کا اس معاہدے کے بنیادی مواد اور اور اس کی اصل روح پر عمل نہ کرنا ہے۔
تباہ کن ہتھیاروں کو کم کرنے اور ان کو ختم کرنے کے مقصد سے اس معاہدے کے وجود کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار جن کے استعمال سے انسانی معاشروں اور ماحولیات پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں، مسلسل تیار کئے جا رہے ہیں۔، ایٹمی طاقتیں، خطرات کی پرواہ کیے بغیر، ان ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ بھی خطرات میں اضافے کا باعث ہے، جیسا کہ یوکرین کی جنگ کے بعد روس اور نیٹو کے درمیان جوہری تصادم نے ان کے درمیان ممکنہ تنازعات میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔
البتہ ماسکو نے ایٹمی جنگ سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پہلے این پی ٹی ٹریٹی ریویو کانفرنس کے شرکاء کو ایک خط میں متنبہ کیا ہے کہ "جوہری جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا اور اس طرح کا تنازعہ کبھی شروع نہیں ہونا چاہیئے،” درحقیقت دنیا کو ستر سال سے زائد عرصے سے ایٹمی جنگ کے ڈراؤنے خواب کا سامنا ہے، کیونکہ بڑی ایٹمی طاقتیں اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنا رہی ہیں۔ وہ پانچ ممالک جنہیں جوہری ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ممالک جو پچھلی چند دہائیوں میں مختلف طریقوں سے ایٹمی ریاستوں کے کلب میں شامل ہوئے ہیں، جدید ہتھیاروں کی تیاری، انہیں اپ ڈیٹ کرنے اور نیوکلیئر لانچر سسٹم بنانے میں مصروف ہیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوٹیریس نے جوہری طاقتوں پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ان ممالک نے اپنے ہتھیاروں کو تیز تر، زیادہ درست اور ان کا کھوج لگانا مشکل بنا دیا ہے اور دوسری جانب جو ڈھانچہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور جوہری تخفیف اسلحہ کو آگے بڑھانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ ماضی کے مقابلے میں آج بے اثر ہوکر رہ گیا ہے۔دوسری جانب امریکہ میں اس ملک کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے دیگر جوہری طاقتوں سے سبقت لینے کے لئے اپنے نئے جوہری نظریئے کے فریم ورک کے اندر امریکی جوہری پروگرام اور ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے وسیع اور انتہائی مہنگے اقدامات کیے ہیں اور یہ سلسلہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں بھی جاری ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔