(تحریر: سید رضا میر طاہر)
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر سیاستدانوں، حریف جماعتوں اور میڈیا کو محدود کرنے اور سختی سے دبانے کا الزام ہے۔ ان پابندیوں میں حریف جماعتوں کے سیاست دانوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دینا بھی شامل ہے۔انگریزی اخبار ڈیلی ایکسپریس نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ’’یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یوکرائنی پارلیمنٹ کے رکن اولیکسی گونچارینکو کی برطانیہ روانگی روک دی، تاکہ وہ کنزرویٹو پارٹی اور برطانوی لیبر پارٹی کے سالانہ اجلاس میں شرکت نہ کرسکیں۔ زیلنسکی کے رویئے پر تنقید کرتے ہوئے گونچارینکو نے کہا: "یوکرین کی حکومت روس کے ساتھ جنگ کے بہانے فریقین اور میڈیا کو دباتی ہے، جو کہ ایک غلط طریقہ ہے۔”
اس سے قبل یوکرین کے صدر نے اس وقت کے برطانوی وزیر دفاع بین والیس کی "طنزیہ بات” پر تنازعہ کی وجہ سے لندن میں تعینات اپنے ملک کے سفیر وادیم پریسٹیکو کو برطرف کر دیا تھا۔ زیلنسکی کی جانب سے مزید ہتھیاروں کی بار بار کی درخواستوں پر اعتراض کرتے ہوئے والیس نے کہا تھا کہ "زیلنسکی سمجھتے ہیں کہ برطانیہ ایک ایمیزون ہے، جو اس کی ضروریات کو پورا کرے گا۔” اس کے علاوہ، اس ملک کے کئی سیاست دانوں اور میڈیا نے یوکرین پر ناشکری کا الزام لگایا ہے۔ اگرچہ زیلنسکی نے ناشکری کے الزام کی تردید کی، لیکن لندن میں یوکرین کے سفیر نے برطانیہ کے تئیں ان کی حکومت کے موقف پر تنقید کی ہے۔
زیلنسکی کے سیاستدانوں اور یوکرائنی میڈیا پر دباؤ اور پابندیوں کے انکشاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دعووں کے باوجود عملی طور پر یوکرین کے صدر تنقید اور مخالفت کو برداشت نہیں کرتے اور ملکی سطح پر یوکرین کی واحد آواز بننے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر صرف ان کی بات کو پورے یوکرین کی آواز سمجھا جائے۔ اس کی ایک مثال لندن میں یوکرین کے سفیر کو اس وقت کے برطانوی وزیر دفاع بین والیس کے ساتھ معاہدے کے بعد برطرف کرنا ہے۔ زیلنسکی کی پوری توجہ میڈیا کو اپنے خیالات کے مطابق ہم آہنگ کرنے پر مرکوز ہے۔ دوسری طرف، زیلنسکی کی کوششیں، خاص طور پر یوکرائنی جنگ کے آغاز کے بعد، میڈیا کو محدود کرنے اور انہیں اپنے خیالات کے مطابق ہدایت دینے پر مرکوز ہیں۔
اس حوالے سے ٹوئٹر صارفین نے یوکرین میں میڈیا کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے نئے قانون کی منظوری کے بعد زیلنسکی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے جمہوری معاشرے میں ایسے فیصلوں کے ناقابل قبول ہونے کی نشاندہی کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ امریکہ کی طرف سے کیف کے لیے مختص کی گئی رقم کن امور پر خرچ کی جا رہی ہے۔ 29 دسمبر 2022ء کو، Volodymyr Zelensky نے نئے "میڈیا قانون” پر دستخط کیے ہیں، نیا قانون میڈیا پر حکومت کے کنٹرول کو مضبوط کرتا ہے اور روس کے اقدامات کے مثبت جائزوں پر پابندی لگاتا ہے۔
"زیلینسکی نے یوکرین میں خبروں اور سوشل میڈیا کی سنسرشپ کو سخت کرنے کے لیے جس نئے قانون پر دستخط کیے ہیں، یہ بل 2019ء سے تیار کیا جا رہا ہے،” ایک صحافی اور ٹی وی پروگرام پیش کرنے والے سیاست دان جیک پوزوبک نے اس قانون کی منظوری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ زیلنسکی کا مقصد سیاست دانوں اور میڈیا کو ہر ممکن حد تک محدود کرنا ہے، وہ ایک طرف پارلیمنٹیرینز کی آواز کو خاموش کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف رائے عامہ کے آواز کو بھی دبانا چاہتے ہیں۔زیلنسکی ان اقدامات سے اپنی مطلوبہ راہ میں حائل اصل اور ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے خواہاں ہیں۔ زیلنسکی میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر جاری تنقیدی خبروں اور رپورٹوں کی اشاعت کو مسلسل روک رہے ہیں اور میڈیا کو یوکرینی حکومت کے نظریات سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔