بدھ , 6 دسمبر 2023

پاراچنار کے علاوہ کرم کا کوئی علاقہ حکومت کیلئے محفوظ نہیں

(تحریر: ایس این حسینی)

لوئر کرم کا علاقہ صدہ ہمیشہ سے طالبان، القاعدہ اور دیگر دہشتگردوں کا گڑھ رہا ہے اور یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ 1983ٰء میں یہاں کے مالک اور بنیادی طوری بنگش قبائل کو یہاں سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔ حاجی حسین غلام (عرف حاجی دادو) پر افغان مجاہدین جتھوں کی کمک سے یہاں کے دہشتگردوں نے حملہ کیا اور 3 دن تک بھوکا پیاسا محاصرہ میں رکھنے کے بعد دھوکے سے باہر نکالا گیا اور پھر بھرے بازار اور سڑک کے وسط میں خواتین اور بچوں سمیت گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس کے بعد صدہ کے اسٹیک ہولڈر تمام شیعہ خانوادوں کو بیدخل کرکے ان کی املاک پر قبضہ کیا گیا، حالانکہ وہاں آج بھی 80 فیصد پراپرٹی اہل تشیع کی ہے۔ صدہ میں موجود تمام مساجد، امام بارگاہوں اور اہل تشیع کے تمام گھروں کو قرآن مجید کے نسخوں سمیت جلا کر راکھ میں تبدیل کیا گیا۔ 40 سال سے طوری بنگش شیعہ قبائل صدہ سے بے دخل اور مہاجر ہیں۔ بار بار گوشگزار کرانے کے باوجود سرکار کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔

تاہم افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت سمیت ہر مہمان اور ہر مسلک کے لئے امن کے گہوارے اور ضلعی صدر مقام پاراچنار کو چھوڑ کر ہر قسم کی ترقیاتی سرگرمیاں طالبان کے مرکز صدہ میں کی جا رہی ہیں۔ صدہ سمیت لوئر اور سنٹرل کے اکثر علاقے نا امنی کی وجہ سے حکومت نے خالی کرائے ہیں۔ گذشتہ روز بھی سنٹرل کرم میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کرکے دہشتگردوں نے سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا، جن میں سے ایک جاں بحق جبکہ درجن بھر شدید زخمی ہوگئے اور مزے کی بات یہ کے صرف چند شرپسندوں کے مقابلے میں سکیورٹی اہکاروں نے کوئی خاص مزاحمت نہیں، کیونکہ انہیں اپنی جانوں سے کچھ زیادہ جنت کے ان ورثاء کی فکر لاحق تھی کہ انہیں کوئی گزند پہنچ کر کہیں ان کی آخرت خطرے میں نہ پڑ جائے۔

بہر صورت صدہ اور لوئر کرم میں بے دخل اور مظلوم طوری قبائل کی املاک کو زبردستی قبضہ میں لیکر شرپسندوں کو ہی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ جہاں شیعوں کے گھر تو کیا مساجد و امام بارگاہیں بھی زمین بوس کی جاچکی ہیں۔حکومت اور اعلیٰ اختیاراتی اداروں سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ صدہ سے بیدخل اور مہاجر قبائل کو فوراً وہاں آباد کرایا جائے اور جس طرح پاراچنار میں اہل سنت کی مسجد اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے، اسی طرز پر شیعوں کے لئے بھی اپنے اپنے مقامات پر مساجد اور امام بارگاہ تعمیر کروا کر آئین پاکستان نیز بنیادی انسانی حقوق کا لحاظ رکھا جائے۔ صدہ کے بنیادی قبائل طوری بنگش کی وہاں آبادی تک کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ شروع نہ کیا جائے، کیونکہ ایسا کرنا علاقے کے امن و امان کیلئے نہایت خطرناک ہے۔ نیز یہ کہ اصل باشندگان کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی منصوبہ شروع کرنا اصول اسلام سمیت انسانی حقوق نیز ملکی قانون کے بھی سراسر منافی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …