جمعہ , 8 دسمبر 2023

طالبان امریکہ غلط فہمی

(تحریر: مجید وقاری)

طالبان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام پر طالبان کی مخالفت کو دہراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ طالبان نے کسی بھی ملک کے ساتھ فوجی اڈے کے قیام پر بات نہیں کی ہے۔ دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں سات امریکی فوجی اڈوں کا قیام دوحہ معاہدے کا حصہ ہے۔ تاہم طالبان کے وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی فوجی اڈے کے قیام کا معاملہ دوحہ معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ اگرچہ طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدے کی مکمل شقیں شائع نہیں کی گئی ہیں، لیکن اگر طالبان نے معاہدے میں ایسی کسی شق کو تسلیم کیا ہے تو یہ نہ صرف طالبان کے امریکہ مخالف نعروں کے بالکل خلاف ہے بلکہ امریکہ بحران کو ہوا دے کر اور افغانستان میں عدم تحفظ پیدا کرکے حالات کو اس طرف موڑ دے گا، جس سے افغانستان میں فوجی اڈے کے قیام کا راستہ ہو جائے۔

جیسا کہ طالبان کہتے ہیں، اس گروپ نے دوحہ معاہدے میں افغانستان میں امریکی اڈے کے قیام پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے، تب بھی امریکا افغانستان میں عدم تحفظ کا سہارا لے کر اس شبہ کو ہوا دے گا کہ طالبان افغانستان میں سیاسی و سکیورٹی کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لئے امریکہ کو مداخلت کرنی چاہیئے۔ سیاسی امور کے ماہر سید عیسیٰ مزاری کہتے ہیں: "ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے مکمل انخلاء پر پچھتاوا ہے اور وہ فوجی اڈہ قائم کرکے ہر ممکن طریقے سے اس ملک میں واپس آنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ طالبان افغانستان میں سلامتی کی بنیادوں کو مضبوط کرکے امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کے سکیورٹی بحران کو پیدا کرنے سے روک سکتے ہیں، تاکہ وہ سکیورٹی کے نام پر دوبارہ مداخلت نہ کرے۔

طالبان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مطابق اگر طالبان امریکی فوجی اڈوں کے قیام پر رضامند ہیں تو 20 سالہ جنگ کا مقصد کیا تھا؟ ان کا یہ مؤقف طالبان کے امریکہ مخالف موقف پر ایک بار پھر زور دیتا ہے۔افغانستان کے عوام توقع کرتے ہیں کہ طالبان دوحہ معاہدے کو مکمل طور پر شائع کرکے اور اسے منظر عام پر لا کر اس حوالے سے امریکی دباؤ کو بے اثر کر دیں گے۔ افغانستان کے عوام امریکہ مخالف موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے واشنگٹن کے خلاف طالبان کے موقف کی ضرور حمایت کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی مخالفت کا تعلق صرف طالبان سے ہی نہیں ہے بلکہ امریکہ کو افغانستان سے نکالنے میں افغانستان کے عوام نے بھی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

سیاسی امور کے ماہر اسد اللہ بشیر کہتے ہیں: "یہ بات پوری دنیا کے لیے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغانستان کے لوگ غیر ملکی اور امریکہ کے سخت مخالف ہیں اور اب تک وہ تین عالمی طاقتوں کو اس طرح شکست دے چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے بھاگ گئے۔ امریکہ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ طالبان کی حمایت کے بغیر امریکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔بہرحال طالبان کے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کہ انھوں نے دوحہ معاہدے میں امریکا کو افغانستان میں فوجی اڈے کے قیام کے حوالے سے کوئی رعایت نہیں دی تھی، اس معاہدے کی مکمل اشاعت ضروری ہے، تاکہ افغانستان کے عوام کو مکمل طور پر آگاہ کیا جا سکے۔ بصورت دیگر امریکہ افغانستان کو غیر محفوظ بنا کر اڈہ بنانے کی کوشش کرسکتا ہے۔

افغانستان کے بارے میں علاقائی اور بین الاقوامی اجلاسوں، نیز عوام اور خطے کے ممالک کی خواہشات پر اس ملک میں ایک ہمہ گیر حکومت کی تشکیل ضروری ہے اور اس طریقے سے افغانستان میں فوجی اڈہ قائم کرنے کے حوالے سے امریکا کے دباؤ کو بے اثر کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال امریکہ کے اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے داخلی اتحاد اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …