(تحریر: نوید مومن)
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں رسول خدا ص اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ اور دیگر جابر طاقتوں سے مقابلے کا واحد راستہ اسلامی ممالک میں باہمی اتحاد اور بنیادی مسائل کے بارے میں متفقہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ آپ نے کہا: "حقیر صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات بحال کرنے کا جوا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط بندی کرے۔ اس کا حتمی نتیجہ ہار ہے کیونکہ فلسطین میں آزادی کی تحریک آج ہمیشہ سے زیادہ جوش و خروش اور طاقت سے آگے بڑھ رہی ہے جبکہ غاصب صیہونی رژیم ہر وقت سے زیادہ کمزور اور نابودی کے دہانے پر کھڑی ہے۔” اس بارے میں چند اہم نکات قابل غور ہیں:
1)۔ حقیقت یہ ہے کہ خطے کے بعض ممالک کی جانب سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کا عمل دو پہلووں، نظریاتی اور اسٹریٹجک، سے جائزہ لینے کے قابل ہے۔ نظریاتی لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دو بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں جن میں واضح تضاد بھی موجود ہے۔ ایک سازباز پر مبنی نظریہ اور دوسرا مزاحمت پر مبنی نظریہ۔ مزاحمت کا سرچشمہ فطری، انسانی، دینی اور اخلاقی تعلیمات ہیں اور وہ ایک غاصب دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کو ذلت آمیز شکست کے مترادف قرار دیتی ہے۔ دوسری طرف سازباز پر مبنی نظریے کا سرچشمہ غیر فطری اور اقدار کے منافی ہے جو مغربی طاقتوں اور اسلامی دنیا میں ان کے ایجنٹوں کی جانب سے جان بوجھ کر ایک حقیقت پسندانہ نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسی طرح اس کی ترویج کی جا رہی ہے۔
اسرائیل کی جعلی صیہونی رژیم کی تشکیل سے لے کر آج تک واشنگٹن، تل ابیب اور یورپی ممالک نے عالمی سطح اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں سازباز پر مبنی نظریے کو فروغ دینے کیلئے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کی جانب سے صیہونزم سے دشمنی کو یہودیوں سے دشمنی کے مترادف قرار دینا اور خطے میں القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ تشکیل دے کر سکیورٹی بحران ایجاد کرنا بھی اسی مقصد کیلئے انجام پایا ہے۔
2)۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مزاحمت پر مبنی نظریے کو فروغ حاصل ہوا اور اس میں وسعت آتی گئی حتی کہ اسلامی دنیا میں موثر ترین نظریہ بننے کے بعد اس کے اثرات اسلامی دنیا سے باہر تک پھیل گئے۔
ایک غاصب قوت کے واضح ظلم و ستم کے سامنے تسلیم نہ ہونا اور سیاست کی دنیا میں خود کو حقیقت پسند کہنے والے سیاست دانوں اور محققین کے نظریات قبول نہ کرنا مزاحمت پر مبنی نظریے کے ہی اثرات ہیں۔ خطے اور دنیا میں مزاحمت کے حامی گروہوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جبکہ دوسری طرف اسرائیل سے سازباز کرنے والے گروہوں کے درمیان اندرونی اختلافات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مغربی اور صیہونی ذرائع ابلاغ انکار نہیں کر سکتے۔ اسٹریٹجک پہلو سے بھی اسلامی ممالک اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے درمیان دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کی مہم میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو واضح طور پر صیہونزم کے زوال اور نابودی کا پیغام پوری دنیا تک پہنچا رہی ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کی گذشتہ کابینہ (بینٹ اور لاپید کی کابینہ) نے اعلانیہ طور پر دو ریاستی راہ حل کی دھجیاں اڑا دیں۔
خوش فہمی کا شکار بعض عرب حکمران اسرائیلی حکمرانوں سے دو ریاستی راہ حل پر مبنی معاہدے کی پابندی کی توقع رکھ رہے تھے لیکن جب صیہونی حکمرانوں نے مغربی کنارے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی پر بھی راضی نہیں ہوئے تو حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ کابینہ تو کھلم کھلا فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات میں مصروف ہے۔ اس نے اعلانیہ طور پر مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مقبوضہ فلسطین سے مقامی فلسطینیوں کو آئے دن نکال باہر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح قدس شریف کو یہودیانے کی کوشش ہر رہی ہے جبکہ اردن کے بعض علاقوں پر بھی قبضہ جمانے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں صیہونی حکمرانوں سے مذاکرات سراسر جہالت اور غداری ہے۔
3)۔ شاید سعودی ولیعہد محمد بن سلمان جیسے بعض عرب حکمران یہ تصور کرتے ہوں کہ وہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار کر کے اپنی سلامتی یقینی بنا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور سراب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ امریکہ کے ڈیموکریٹ اور ریپبلکن حکمران نیز اسرائیل کے لبرل اور کنزرویٹو حکمران علاقائی اور عالمی سطح پر سعودی عرب کے جس کردار کے حامی ہیں وہ اس تصور سے بالکل مختلف ہے جو سعودی حکمرانوں کے ذہن میں ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ایک حکمت عملی کثرت سے بروئے کار لاتے ہیں جو "مہرون کو کنٹرول کرنے” پر مبنی ہے۔ واشنگٹن اور تل ابیب کی زمین پر کھیلنے والے مہروں کی نہ صرف حدود پہلے سے واضح ہوتی ہیں بلکہ ان کی تاریخ تنسیخ بھی مشخص ہوتی ہے۔ محمد بن سلمان کو شاید اس حکمت عملی کا علم اس وقت ہو جب سی آئی اے اور موساد کی جانب سے انہیں مائنس کرنے کا مرحلہ تکمیل کے قریب ہو۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔