اتوار , 10 دسمبر 2023

یورپ پہ یوکرین جنگ کی گرفت

(اسلم اعوان)

وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں یوکرین جنگ کے مضمرات کے دوائر پھیل رہے ہیں توں توں یورپ کے مقدر پہ بے یقینی کے سائے منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں، بظاہر یہی لگتا ہے کہ روس بتدریج اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط اور عالمی تعلقات کو متوازن رکھنے میں زیادہ فعال جبکہ یورپی یونین گہرے افتراق کی طرف ڈھلک رہی ہے۔ جمعہ کے روز صدر ولادیمیر پوتن کو ویگنر گروپ کے سابق کمانڈروں سے خطاب کرتے دکھایا گیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس نے جون میں ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن، جو اگست میں طیارہ حادثہ میں دیگر سینئر کمانڈروں سمیت مارا گیا، کی ناکام بغاوت کے بعد کرائے کے گروپ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔

قبل ازیں بھی ویگنر کی بغاوت کے چند دن بعد ، پوتن نے کرائے کے فوجیوں کوکمانڈر آندرے تروشیف کی قیادت میں لڑائی جاری رکھنے کی پیشکش کی تھی، روس کے کومرسنٹ اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ صدر پوتن کی جمعرات کی رات کریملن میں کمانڈر تروشیف سے ملاقات ہوئی، جسے سرکاری ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا۔ 23 جون کو پریگوزن کی ناکام بغاوت اور 23 اگست کو اس کی موت کے بعد ، دنیا کی سب سے بڑی کرائے کی فوج، ویگنر، کی تقدیر ابھی غیر واضح سہی لیکن تازہ ملاقاتوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ویگنر کی نگرانی اب تروشیف اور ییوکوروف کریں گے، جنہوں نے حال ہی میں کئی ایسے ممالک کا سفر کیا جہاں کرائے کے فوجی کام کرتے رہے۔

افغانستان اور چیچنیا میں روس کی جنگوں کا منجھا ہوا تجربہ کار اور وزارت داخلہ کی تیز رفتار ردعمل دینے والی فورس کے سابق کمانڈر، تروشیف کا تعلق پوتن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے ہے۔ انہیں 2016 میں داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف شام میں پالمیرا محاذ کو مسخر کرنے پر سب سے بڑا تمغہ، ہیرو آف روس سے نوازا گیا تھا۔ دوسری جانب مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورپ اب یوکرین جنگ کو آگے بڑھانے کا متحمل نہیں رہا، یہ جنگ جتنی دیر جاری رہے گی اتنا ہی یورپیوں کے جانی و مالی نقصانات کا دائرہ بڑھتا جائے گے، سینکڑوں دیہات، قصبے اور شہر پہلے ہی کھنڈر بن چکے ہیں، جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے 53 لاکھ یوکرائنی باشندوں کے ملک چھوڑنے سے مشرقی یوکرین کا بڑا حصہ ویران ہو گیا۔

تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یورپی یونین کے رہنما اور مغربی حکومتیں موسم گرما کے وقفے کے بعد یوکرین جنگ کو نئے معمول کے طور پر قبول کرنے کی متحمل نہیں رہیں، ماحول پہ ایک خاص قسم کی جنگی تھکاوٹ ہویدہ ہو رہی ہے تاہم اس سب کے باوجود کوئی بھی جنگ کے خاتمہ کی طرف قدم بڑھانے کی جسارت نہیں کرتا۔ مذاکرات صرف اسی صورت میں شروع ہو سکتے ہیں جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نیٹو میں شمولیت کی ضد ترک کر کے اپنی شرائط کو صرف یوکرین کی علاقائی سالمیت کو بحالی تک محدود رکھیں، بصورت دیگر اس بے مقصد جنگ کے نتیجہ میں، یورپی براعظم غیر مستحکم، منقسم اور کمزور ہوتا جائے گا۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگ سے نکلنے کے امکانات دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جیکس ڈیلورس انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر نکول گنیسوٹو کہتے ہیں ”ایک ہی رات میں روس نے 1956 سے یورپی یونین کے تمام فلسفہ کو معدوم کر دیا۔ یورپی اقتصادی برادری کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے بعد اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ اقتصادی تجارت اور باہمی انحصار پہلے فرانس اور جرمنی کے درمیان اور پھر یورپ اور باقی دنیا کے درمیان امن کے لیے بہترین نسخہ ثابت ہو گا“ لیکن سب کچھ بکھر گیا، عن قریب مہیب جمود انہیں ناقابل واپسی مقام تک پہنچا دے گا جس کے بعد وہ 2014 اور 2022 میں یوکرین پر روس کے دو حملوں سے بڑھے ہوئے بے پناہ چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل نہیں رہیں گے، یوکرین جنگ نے جس طرح کمزور اور منقسم یورپی ردعمل کو جنم دیا، اٹھارہ ماہ بعد ، امریکی اندازوں کے مطابق، 500,000 کے قریب ہلاک یا زخمی ہونے کے بعد ، یہ سوال ہمیشہ کی طرح کھلا ہے کہ یہ جنگ کیسے ختم ہو گی؟

اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے پاس جنگ کو ختم کرنے کی فوجی صلاحیت باقی نہیں بچی۔ یورپ کی جانب سے دفاعی اخراجات بڑھا کر فوجی ڈھانچے کو مربوط کرنے میں تاخیر نے امریکی مقتدرہ کی بیزاری بڑھ دی، اسی ضمن میں خاص کر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بے رحمانہ تنقید کی گونج اب بھی سنائی دیتی ہے۔ یورپیوں نے، محض امریکہ کی طرف سے سلامتی کی ضمانتوں پہ انحصار اور اپنے دفاع پر کافی خرچ نہ کرنے پر، پینٹاگون کے سربراہان کی یورپی دفاع کی غیر تسلی بخش حالت پہ تحفظات کو مسلسل نظرانداز کیا۔

سلامتی کے ماہرین کہتے ہیں کہ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں یورپیوں کو اپنی سلامتی کو سنجیدگی سے لینے کا بہترین چانس ملا تھا لیکن یورپ نے وہ موقعہ گنوا دیا۔ یعنی یوکرین جنگ کی پیچیدگیوں نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ بہت سے یورپی ممالک ابھی تک یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے ان کی اپنی سلامتی خطرے میں ہے۔ اسی سہل انگاری کے باعث انہوں نے یوکرین کی مدد کو فقط امریکی انحصار پہ چھوڑ دیا اور یہی روش یورپیوں کے ایسے اسٹریٹجک کلچر کو پروان چڑھانے کی راہ میں حائل ہے جو سیکورٹی اور طاقت پر مبنی ہو، قطع نظر اس کے کہ 2024 میں امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا، مضبوط اور مربوط سیکورٹی انفراسٹرکچر کے بغیر یورپ کی بقاء ممکن نظر نہیں آتی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یورپی یونین کا کون سا ملک ایک نئے اسٹریٹجک کلچر کو آگے بڑھانے میں پہل کرتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یورپی یونین پولینڈ، بالٹک ریاستوں، جمہوریہ چیک اور رومانیہ کو چھوڑ کر یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ یوکرائن کی فتح یورپ کو مزید مستحکم اور محفوظ بنائے گی۔ یورپ میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ مغربی رہنماؤں کا اتنا کہنا کافی نہیں کہ وہ یوکرین کی حمایت کریں گے، اگر ملک کو ضروری فوجی ساز و سامان نہیں ملتا تو یہ کیسے ممکن ہو گا؟ اگر یورپ کے کچھ دارالحکومتوں اور واشنگٹن میں یہ سوچ پل رہی ہے کہ یوکرائنی مزاحمت کافی تیز یا موثر نہیں، تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یوکرین کے پاس اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے فوجی مدد کی کمی ہے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ جولائی میں ولنیئس سربراہی اجلاس کے دوران، نیٹو نے ہمت اور یقین کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع ضائع کر دیا، اجلاس میں یوکرین کو پھر رکنیت کی پیشکش کی جانی چاہیے تھی لیکن امریکہ اور جرمنی نے یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کی مخالفت اس بنیاد پر کی کہ یہ روس کو مزید اشتعال دلا کر دنیا کو عالمی جنگ کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔ بلاشبہ یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے ہی عالمی اثرات ہیں، توانائی، خوراک کی فراہمی اور عالمی اتحاد کے مواقع محدود ہونے کے علاوہ روس کے لیے چین کی حمایت نے دنیا کو منقسم کر دیا یعنی یہ جنگ اب صرف یوکرین تک محدود نہیں بلکہ یہ تنازعہ بتدریج عالمی تعلقات کی نزاکتوں کو متاثر کرنے لگا ہے تو پھر یہ جنگ یورپ کے لیے بالخصوص اور مغرب کے لیے بالعموم امتحان ہے، بلکہ ان کی بقاء کا انحصار بنیادی طور پر ان نتائج پر ہے جو انہیں جنگ سے حاصل ہوں گے۔

جون میں برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بیشک یوکرائین پہ حملہ بارے ہمارا جو ردعمل پہلے ایک گھنٹہ میں تھا، اب اس حد تک نہیں رہا تاہم اس کے باوجود یہ جنگ یورپ کی اولین ترجیح ہے، ہم اس وقت تک یوکرین کے ساتھ رہیں گے جب تک جنگ جیت کے یوکرین کی تعمیر نو کے علاوہ اسے نیٹو کا رکن بنا نہیں لیا جاتا۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل، جرمنی کے چانسلر اولاف شولز، نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل اور یورپی کمیشن کے صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے سربراہی اجلاس میں کہا تھا کہ روس کی جنگ نے ایک سوئے ہوئے دیو کو جگا دیا۔ ایسے اقدامات جن کا صرف چند دن پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، جیسا کہ معروف روسی بینکوں کو سوئفٹ کے بین الاقوامی مالیاتی پیغام رسانی کے نظام سے روکنا اور روسی مرکزی بینک کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ بے مثال رفتار سے نافذ کیا گیا تاہم جنگ میں ناکامی کی قیمت بھی خوفناک حد تک زیادہ ہو گی۔بشکریہ ہم سب نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …