پیر , 11 دسمبر 2023

بجلی چوری کروانے والے کب پکڑے جائیں گے؟

(میاں اشفاق انجم)

ریاستی اداروں نے ایک وقت میں بہت سے محاذ کھول لیے ہیں جس میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن اور ملک چھوڑنے کے لئے31اکتوبر کی ڈیڈ لائن، سمگلنگ کا ناسور جڑ سے اکھاڑنے کے لئے فول پروف منصوبے،کنڈا مافیا اور بجلی چوروں کے خلاف ملک گیر مہم بلاشبہ اقتصادی بحالی کے لئے شروع کیے گئے تمام اقدامات ضروری ہیں۔اداروں کی طرف سے شروع کی گئی کامیاب مہم جوئی کے بعد عوام الناس خوش بھی ہیں اور سوال کرتے بھی نظر آتے ہیں سب سے اہم سوال اور چاروں اطراف سے اٹھنے والا سوال یہ ہے کیا واپڈا ملازمین کی آشیر باد کے بغیر شہر، گاؤں،دکان یا کارخانے میں بجلی چوری کرنا ممکن ہے، واپڈا ملازمین کی پھرتیوں سے ایسا لگ رہا ہے جیسے انہیں ٹارگٹ دیا گیا ہے روزانہ100بجلی چوری پکڑنے ہیں اور ساتھ ریکوری والے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کے ڈس آنر چیک نکال رہے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی بجلی چوری کرنے والوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔بظاہر بڑا حوصلہ افزا عمل ہے ایسا ہی ہونا چاہئے مگر ذہن اور دماغ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے واپڈا اور اس کے بچے جو لیسکو، فیسکو اور دیگر اداروں میں تقسیم کیے گئے ہیں ان کی بدمعاشی، ہٹ دھرمی اور مانپلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے غریب آدمی کا بِل وقت پر جمع نہ ہو تو اگلے دن میٹر کاٹ کر لے جاتے ہیں اور پھر ذلیل وخوار کرنے کے ساتھ معقول نذرانہ لے کر میٹر لگا دیتے ہیں میٹر پیچھے کرنے والے، ماہانہ بل فیکس کرنے کے ٹھیکے کرنے والے اور واپڈا افسروں کے فرنٹ مین جو سرِبازار میٹر اور تار نہ ہونے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، مگر فرنٹ مین اور اہلکاروں کی ساز باز ہو جائے اور فیکس نذرانہ مل جائے تو میٹر بھی آ جاتا ہے تار بھی مل جاتی ہے۔

اندھیر نگری چوپٹ راج ہے راقم چشم دید گواہ بن سکتا ہے لیسکو افسروں کے ٹاؤٹ نے اپنے پرائیویٹ دفاتر میں میٹر اور تاروں کا سٹاک رکھا ہو ہے اللہ بھلا کرے آرمی چیف کا انہوں نے ڈنڈا اٹھایا تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب پٹڑی پر چڑھ رہے ہیں۔ لیسکو، فیسکو، گیپکو جیسے اداروں میں بھی سانپ سونگھ گیا ہے خوف و ہراس ہے ٹاؤٹ مافیا، کنڈا مافیا دُم دبا کر بھاگ رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بجلی چور پکڑے جا رہے ہیں، اربوں روپے کی ریکوری ہو رہی ہے اچھا اقدام ہے، مگر عوام کا اور میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے عارضی مہم جوئی سے حکومت کو اربوں روپے تو مل جائیں گے، وقتی طور پر بجلی چوری کرنے والے ادارے اور افراد بھی بے نقاب ہو جائیں گے مگر اصل ناسور تو اپنی جگہ موجود ہے۔اصل فساد کی جڑ تو بجلی چوری کروانے والے افسر و اہلکار یا ٹاؤٹ ہیں جو نہ صرف غیر قانونی عمل سرانجام دلاتے ہیں، بلکہ بعض تو ریاست کے خلاف بغاوت کرواتے ہیں اور ظالم حکومت کہہ کر ترغیب دیتے ہیں ان کو بِل نہیں دینا چاہئے اور بعض فتوے جاری کرتے ہیں۔ حرام خوری افسر کریں یا ملازمین غریب عوام بل کیوں دیں؟ بات دوسری طرف نکل گئی آرمی چیف اور ریاستی اداروں کے ذمہ داران بجلی چوری،سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف اقدامات قابل ستائش ہیں اس کے مثبت اثرات ڈالر کی قیمت میں کمی کے ذریعے سامنے آ رہے ہیں، بجلی چور منہ چھپائے پھر رہے ہیں افسوس کے فساد کی اصل جڑ، بجلی چوری اور سمگلنگ کے سرغنہ اپنی جگہوں پر موجود ہیں۔واپڈا کے ملازمین کے بڑے پیمانے پر تبادلوں کو حل سمجھ لیا گیا ہے۔ایک حرام خور جس کے منہ کو خون لگ چکا ہے وہ کسی بھی جگہ جائے گا وہ حرام کاری سے باز نہیں آئے گا اِس لئے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی یا واہ واہ کروانے کی بجائے اگر اللہ نے آپ لوگوں سے یہ کام لے لیا ہے۔اس نامور بیماری کو مستقل بنیادوں پر جڑ سے اکھاڑ دیں اور جس علاقے یا گھر، کارخانے،فیکٹری سے بجلی چوری پکڑی جائے اس کے ذمہ دار کا تعین کر کے اسے عبرت کا نشان بنایا جائے۔

سمگلنگ کے حوالے آرمی چیف کے احکامات اور ایپکس کمیٹی کے فیصلے جو وزیر داخلہ نے بتائے ہیں آرمی کا افسر بھی ملوث ہوا تو کورٹ مارشل ہو گا۔ایسے اقدامات بجلی چوری کروانے والوں کے لئے بھی کیے جائیں، معاشی بحالی کے لئے14کھرب نہیں 14 ہزار ارب کی بچت ہو سکتی ہے مجھے یقین ہے ملکی معیشت کی ڈوبتی ناؤ کو منزل تک پہنچانے کے لئے یہ اقدامات معاون ثابت ہوں گے۔اقتصادی بحالی کا روڈ میپ معاشی بحالی کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے سمیت حکومتی شہ خرچیوں کو کم کرنے کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔ نگران وزیراعظم کے دس دن کے دورے میں ان کی فیملی، وفد کے دیگر ارکان کا بوجھ، ہوٹل اور ایک ساتھ کئی ممالک کے دوروں میں کروڑوں روپے کے اخراجات سے حکمرانوں کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تارکین وطن کو ملک چھوڑنے کے لئے ڈیڈ لائن دیر آئے درست آئے قابل ِ ستائش عمل ہے یہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا، سمگلنگ، دہشت گردی کے تانے بانے افغانوں اور دیگر تارکین وطن سے جڑے ہوئے ہیں۔نگران حکومتوں کو اپنی دوعملی ختم کر کے عوامی جذبات کا حساس کرنا ہو گا۔عموماً تاثر نگران حکومتیں ہر وہ کام کر رہی ہیں جو ان کا مینڈیٹ نہیں ہے اصل ذمہ داری الیکشن کروانے کی ہے اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ آرمی چیف کے بروقت اقدامات سے مثبت اثرات آ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عوام بڑی مشکل میں ہے،پٹرول،بجلی اور اب گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے بعد روزمرہ استعمال کی اشیاء اور یوٹیلیٹی بل عام اور خواص کی پہنچ سے بھی باہر ہورہے ہیں۔پنجاب میں تو گواہی دے سکتا ہوں جتنے دکاندار اتنے ریٹ لاگو ہیں، دکاندار مرضی کا ریٹ لگا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

عام آدمی کے لئے ماہانہ گزارا مشکل ترین ہو گیا ہے،بجلی چوری یا سمگلنگ یا ذخیرہ اندوزی سے اربوں روپے کی بچت اور اربوں روپے کی چینی اور گندم کی برآمدگی کا فائدہ اگر عوام کو نہیں ہو گا اس کی مشکلات کم نہیں ہوں گی، قیمتیں کم نہیں ہوں گی تو عوام کو اس ڈرامہ بازی کا کیا فائدہ۔ واہ واہ کے لئے تو سیاسی پنڈت ہی کافی ہیں بجلی کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے150ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں ان سے منسلک20 لاکھ افراد بیروز گار ہو گئے ہیں، دو سال میں دو کروڑ خاندان مزید بھوک کے کارخانے میں گر گئے ہیں ان کی تعداد جو غربت کی لکیر سے نیچے آ گئی، تعداد 12کروڑ تک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تازہ ترین سروے میں 80 لاکھ افراد بیروزگار ہو گئے ہیں،لاکھوں کی تعداد میں پڑھے لکھے ڈگریاں پکڑے نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے مایوسی کی بھینٹ چڑھ کر پاسپورٹ آفس کے باہر لائنوں میں کھڑے ہیں اور ایجنٹ مافیا کو باہر بھیجنے کے لئے والدین کی جمع پونجی فروخت کر کے ادائیگیاں کر رہے ہیں،ذہنی مریض بننے والوں،خود کشی کرنے والوں، بچوں کو بھوک کے ہاتھوں مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔افسوس حکمران اپنی روش بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کے پروٹوکول، عیاشیاں عروج پر ہیں حکمرانوں کی دوعملی کی وجہ سے عوام میں بزدلی بڑھ ر ہی ہیں۔عوام حافظ کے ڈنڈے سے ہونے والے مثبت اثرات سے خوش ہیں وہ منطقی انجام دیکھنے کے خواہاں ہیں یا عوام کی دلی مراد پوری ہو جائے اور عوام کو بار بار بیوقوف بنانے والوں اور لوٹ مار کرنے والوں،بچلی چوری، سمگلنگ کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …