اسرائیل نے حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کے دعوے کے بعد غزہ میں فضائی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں 198 فلسطینی شہید ہوگئے۔فلسطین کی وزارت صحت نے بتایا کہ شام 4 بج کر 20 تک ’198 افراد کے شہید اور ایک ہزار 610 کے زخمی‘ ہونے کی اطلاع ملی ہے۔
اس سے قبل اسرائیل نے کہا تھا کہ حماس کی جانب سے گزشتہ سالوں کے دوران کیے گئے سب سے بڑے حملے میں100 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہو گئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق غزہ سے اسرائیل پر 5 ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے گئے اور متعدد فلسطینی مجاہدین اسرائیل میں داخل ہوگئے جہاں ان کی سڑکوں اور گلیوں میں اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپیں ہورہی ہیں۔
مجاہدین نے 57 صہیونی فوجیوں کو قیدی بھی بنالیا جبکہ متعدد اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو بھی قبضے میں لے لیا اور کئی ٹینکس بھی تباہ کردیے ہیں۔حماس کے فوجی ونگ القسام بریگیڈز کے سربراہ کمانڈر محمد الضیف ’ابو خالد‘ نے آپریشن طوفان الاقصی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے مسجد الاقصیٰ میں مسلسل اشتعال انگیزی اور فلسطینیوں پر مظالم کا جواب ہے۔
حماس کے عسکری ونگ، عزالدین القسام بریگیڈز نے ایک بیان میں کہا، ’’ہم نے غاصب اسرائیل کے تمام جرائم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا احتساب کیے بغیر ہنگامہ آرائی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔‘‘ "ہم نے آپریشن الاقصیٰ فلڈ کا اعلان کیا اور ہم نے 20 منٹ کے پہلے حملے میں، 5000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے۔”
تاریخی پس منظر
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد، برطانیہ نے فلسطین پر کنٹرول حاصل کر لیا، جس میں یہودی اقلیت اور عرب اکثریت آباد تھی۔بین الاقوامی برادری نے برطانیہ کو فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا کام سونپا، جس سے دونوں گروہوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔
1920 اور 1940 کی دہائیوں میں، فلسطین میں یہودی تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا کیونکہ انہیں فلسطین پر قابض سرزمین ملک گئی تھی جسے اسرائیل کانام دیا گیا۔
یہودیوں اور عربوں کے درمیان تنازع کے ساتھ ساتھ برطانوی حکمرانی کے خلاف مزاحمت بھی تیز ہوگئی۔ 1947 میں، اقوام متحدہ نے فلسطین کو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیے ووٹ دیا، یروشلم بین الاقوامی انتظامیہ کے تحت۔ یہودی قیادت نے اس منصوبے کو قبول کیا، لیکن عرب فریق نے اسے مسترد کر دیا، اور اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔
1948 میں، جھگڑے کو ختم کرنے میں ناکام، برطانوی حکام پیچھے ہٹ گئے اور یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ بہت سے فلسطینیوں نے اعتراض کیا، اور جنگ شروع ہو گئی۔ پڑوسی عرب ممالک نے فوجی طاقت سے مداخلت کی۔ لاکھوں زبردستی اپنے گھروں سے نکالے گئے جس کوانتفادہ کا نام دیا گیا۔
برسوں کے دوران، اسرائیل اور فلسطین متعدد جھڑپوں میں ملوث رہے ہیں، کچھ معمولی، کچھ تباہ کن تناسب جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔دو فلسطینی بغاوتوں، یا ‘انتفاضہ’ نے اسرائیل-فلسطینی تعلقات پر گہرا اثر ڈالا، خاص طور پر دوسرا، جس نے 1990 کی دہائی کے امن عمل کو ختم کیا اور تنازعات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا
امریکی صدر بل کلنٹن نے 11 جولائی 2000 کو کیمپ ڈیوڈ سمٹ بلائی، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات کو حتمی حیثیت کے بارے میں گفت و شنید کے لیے اکٹھا کیا گیا، لیکن سربراہی اجلاس بغیر کسی سگار کے ختم ہوا، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔
انجام کیا ہوگا؟
حماس نے مغربی کنارے اور عرب اور اسلامی دنیا میں اپنے جنگجوؤں سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ تازہ ترین تنازعے کی روشنی میں، مشرقی یروشلم، غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔
اسرائیل اور مصر حماس کو ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش میں غزہ کی سرحدوں پر سخت کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے غزہ میں ایک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے، بہت سے لوگ خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی، مغربی کنارے کی رکاوٹوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے گھروں کی تباہی جیسے اسرائیلی اقدامات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف فلسطینی تشدد سے اپنے دفاع کے لیے کام کر رہا ہے کیونکہ اسرائیل نے روان برس اب تک 200 سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔
حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل کی تعلقات بحالی کا عمل یقینی طور پر رک جائے گا اور حماس کا ٹارگٹ بھی یہی ہے کیونکہ اگر سعودی عرب اسرائیل سے ہاتھ ملا لیتا ہے تو اس کا مطلب پورے کا پورا فلسطین کھو دینا ہے۔ اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ فلسطین کے اندر اس حملے کے بعد خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے گو کہ انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے مگر حماس یہ قیمت چکا کر اپنے مقصد میں یقینی طور پر کامیاب ہوچکی ہے۔بشکریہ شفقنا نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔