(تحریر: سید رضا میر طاہر)
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی شراکت داروں کی طرف سے صیہونی حکومت کی مکمل حمایت نیز واشنگٹن کی طرف سے صیہونی حکومت کو فوجی امداد اور گولہ بارود بھیجنے کے باوجود مغرب کی دو حریف طاقتوں روس اور چین نے اس سلسلے میں ایک مختلف موقف اپنایا ہے۔ روس اور چین نے مغربی پالیسیوں خصوصاً فلسطینی عوام کے حقوق کو مسلسل نظر انداز کرنے کو حالیہ واقعات کی اصل وجہ قرار دیا ہے۔ ہفتے کے روز، روس کی وزارت خارجہ نے فلسطینی مزاحمتی آپریشن کے جواب میں جسے "طوفان الاقصیٰ” کہا جا رہا ہے، ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "ماسکو فلسطین اور اسرائیلی حکومت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی عدم تعمیل اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے کا نتیجہ سمجھتا ہے۔”
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مزید کہا کہ امریکہ نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے بنیادی مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: "امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حل کے لیے من مانی کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسا درمیانی حل پیش نہیں کیا ہے، جو طرفین کے لئے قابل قبول ہو۔ پیوٹن نے غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کی جارحیت اور فلسطین میں ہونے والی حالیہ صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "سب لوگ مجھ سے متفق ہیں کہ یہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی ناکامی کی واضح مثال ہے۔” مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی ناکامی، تناؤ میں حالیہ اضافے اور صیہونی حکومت اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے درمیان موجودہ جنگ بلا شک و شبہ واشنگٹن کے متضاد دعوؤں اور پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
طوفان الاقصیٰ اور امریکی حکومت کیجانب سے صیہونی حکومت کی حمایت میں شدت
اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دو ریاستی حل کی پالیسی کی حمایت کرتی ہے، لیکن عملی طور پر تل ابیب کی مکمل حمایتی ہونے کے ناطے واشنگٹن نے صیہونی حکومت کے خلاف قانون اقدامات کا کبھی کوئی موثر جواب نہیں دیا۔ مثال کے طور پر فلسطینی زمینوں پر قبضے اور فلسطینیوں کی بے دخلی نیز 1967ء کے مقبوضہ علاقوں سے مغربی کنارے کے ایک حصے کا مقبوضہ فلسطین سے الحاق، فلسطینیوں کا روزانہ کا قتل عام اور مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کو جاری رکھنے جیسے اقدامات ایسے امور ہیں، جس پر امریکہ نے ہمیشہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔
یہ فطری بات ہے کہ اس صورت حال کے جاری رہنے اور فلسطینی عوام کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور بڑھتی ہوئی پابندیوں کے نتیجے میں مزاحمتی گروہوں نے صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑنے کے لیے "طوفان الاقصیٰ” آپریشن کی صورت میں اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بہرحال مغربی ممالک کے برعکس، جنہوں نے طوفان الاقصیٰ کارروائی کی مذمت کی ہے اور یکطرفہ طور پر صیہونی حکومت کے حکام کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا ہے، روس، امریکہ کو موجودہ صورت حال کا اصل مجرم گردانتا ہے۔ اسی لئے روس نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
فلسطین میں پیشرفت کے حوالے سے چین کا مؤقف
چین کی جانب سے بھی اسی طرح کے موقف کا اظہار کیا گیا ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کی مذمت کے لیے بیجنگ پر پڑنے والے مغربی دباؤ کے باوجود چینی حکام نے درمیانی پوزیشن اختیار کی ہے۔ اتوار کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فلسطین میں موجودہ کشیدگی اور تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ بحران کا بنیادی حل دو ریاستی حل پر عمل درآمد اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ روس کی طرح چین نے بھی یک طرفہ موقف اختیار کرنے کے بجائے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ حل کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں حالیہ پیش رفت کے حوالے سے بیجنگ کے موقف پر واشنگٹن نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک رہنماء "چک شومر” نے پیر کے روز چین کے اس موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ چک شومرکا کہنا ہے: "سچ بتاؤں، میں شائع ہونے والے بیان سے بہت مایوس ہوا، کیونکہ اس بیان میں موجودہ مشکل اور اس مشکل وقت میں اسرائیل کے لیے کوئی ہمدردی یا حمایت نہیں تھی۔” مقبوضہ فلسطین میں حالیہ پیش رفت بالخصوص طوفان الاقصیٰ آپریشن کے حوالے سے روس اور چین کے امریکہ سے مختلف مواقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی بلاک کے برعکس ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں یکطرفہ اور اسرائیل نواز موقف اپنانے پر تیار نہیں ہیں۔
مغربی طاقتوں نے کئی دہائیوں سے عالمی سیاست پر غلبہ قائم کیا ہوا ہے اور وہ مسئلہ فلسطین سمیت دیگر معاملات میں ہمیشہ یک طرفہ اور غیر منصفانہ تعصب کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں، انہوں نے فلسطین کے بارے میں کبھی بھی منصفانہ بات نہیں کی ہے اور ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا ہے، لیکن اس وقت بین الاقوامی نظام میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے۔ آج دنیا یونی پولر کی جگہ ملٹی پولر کی طرف جا رہی ہے اور اس کثیر پولرائزیشن کی وجہ سے مسئلہ فلسطین پر مغرب کی اسرائیل نواز پالیسی اور بیانیے کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی ہے۔ بلاشبہ اس تناظر میں فلسطینی قوم کے حقوق کے احترام کی ضرورت پر مبنی ایک نیا موقف اپنایا جانا چاہیئے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔