ہفتہ , 9 دسمبر 2023

افغان مہاجرین کی واپسی، ایک بڑا چیلنج

(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)

پاکستان سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے حکومتی فیصلے پر مختلف طرح کے بیانات اور تجزیئے سامنے آرہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی کی ایک پچاس سالہ تاریخ ہے، اس کے بارے میں فوری فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اس جائزے کے دوران ہم نے کئی تجریہ کاروں کی تحریری اور بالمشافہ آراء سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی یک نومبر تک ملک چھوڑ دیں، ورنہ ریاستی ادارے انہیں ملک سے باہر نکال دیں گے۔ کمیٹی کا اجلاس نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اس میں وفاقی وزراء کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر، صوبائی وزرائے اعلیٰ، تمام سول و عسکری اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ ایپکس کمیٹی نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا۔

آج پاکستانی سماج کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے، یاد رہے کہ 80ء کی دہائی سے پہلے اس کا ذکر ہمیں خال خال ہی ملتا تھا، تاہم ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں افغانستان میں بے جا مداخلت کے نتیجے میں آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ خود ریاستی اداروں نے سی آئی اے کی ایماء پر دنیا بھر سے مذہبی جنونیوں کو بغیر کسی دستاویزات کے سوڈان، مصر، فلپائین، عرب اور مختلف اسلامی ممالک سے اکٹھا کرکے افغانستان میں دھکیل دیا۔ سی آئی اے اور ہمارے حکمرانوں نے اس جنگ سے اپنے اپنے مفادات تو حاصل کر لیے، لیکن امریکہ نے ان فاتح مجاہدین کو یہیں چھوڑ دیا، جس کا خمیازہ افغانستان اور پاکستان کا سماج آج بھی نفرت، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہا ہے۔ کیا ایپکس کمیٹی کے اس فیصلے کو پوری شد و مد سے اس طرح نافذ کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکیں۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن پھر حکومت عالمی اداروں کے سامنے بے بس ہوگئی اور واپسی کی کوششیں ترک کرکے ان کے قیام میں توسیع کر دی گئی۔ اس کے بعد افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ امن و امان کو جواز بنا کر عالمی اداروں کے دبائو سے مجبور ہو کر سابق حکومت نے بھی 2015ء تک ان کی واپسی ملتوی کر دی۔ اس وقت ملک کی ایک بڑی اکثریت افغان مہاجرین کی واپسی چاہتی ہے اور ان کے مطالبے میں اس لیے بھی زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے کہ ایک طرف افغان حکومت بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان پر مسلسل الزامات لگا رہی ہے تو دوسری طرف وہ افغان مہاجرین کی مدت قیام میں توسیع کے مطالبے بھی کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے خلاف اقدامات سے بھی گریز نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے پاکستان میں اب افغانیوں کے خلاف فضا ہموار ہو رہی ہے۔

وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم تارکینِ وطن میں سب سے زیادہ افغان شہری ہیں، جن کی تعداد تقریباً 44 لاکھ ہے، ان میں سے 14 لاکھ کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت موجود ہے، ساڑھے آٹھ لاکھ افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے، جبکہ 17 لاکھ غیر رجسٹرڈ شدہ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ افغان شہری پچھلی تین سے چار دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں تو پھر اچانک انہیں ملک سے بے دخل کرنے کا خیال کیوں آیا؟ نگران وزیر داخلہ کے مطابق جنوری سے لے کر اب تک 24 خودکش حملے ہوئے ہیں، جن میں سے 14 حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ اسی طرح آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات خان کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں ہونے والے خودکش دھماکوں میں 75 فیصد خودکش حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ علی مسجد، باڑہ، ہنگو، باجوڑ اور پشاور پولیس لائنز کے خودکش حملہ آور بھی افغان شہری تھے۔

بات پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت اور جعل سازی سے خود کو پاکستانی شہری ظاہر کرکے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیا گیا، اس بنیاد پر پاسپورٹ بنوایا گیا اور بیرون ملک قیام کے دوران جرائم میں پکڑے گئے تو پاکستانی دستاویز برآمد ہوئیں، جس سے بیرون ممالک یہ تاثر گیا کہ جرائم میں ملوث افراد کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ایک انگریزی اخبار میں شہباز رانا کی (6 اکتوبر) رپورٹ کے مطابق جتنی زیادہ پاکستان کی درآمدات گھٹیں اس سے کہیں زیادہ افغانستان کی درآمدات ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعہ بڑھیں۔ گذشتہ برس افغانستان کی درآمدات 7.3 ارب ڈالرز تھیں جبکہ برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالرز کے قریب تھیں۔ اتنا بڑا تجارتی خسارہ پاکستان میں انہی اشیاء کی اسمگلنگ کرکے اور ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ سے پورا کیا گیا، جو سراسر ایک ڈاکہ تھا۔

افغانستان کی بڑی درآمدات 5.6 ارب ڈالرز تک بڑھ گئیں جبکہ اس کی منڈی میں ان کی مانگ نہ تھی۔ مثلاً مصنوعی کپڑے کی افغان درآمد 35 فیصد بڑھی جبکہ پاکستان میں یہ 40 فیصد کم ہوئی، بجلی کے سامان کی افغان درآمد 72 فیصد بڑھی تو پاکستان میں یہ 62 فیصد کم ہوئی۔ افغانستان میں پلاسٹک کی اشیاء کی درآمد 206 فیصد بڑھی تو پاکستان میں 23 فیصد کم ہوئیں، ٹائرز کی درآمد افغانستان میں 80 فیصد بڑھی تو پاکستان میں 42 فیصد کم ہوئی، مشینری کی درآمد افغانستان میں 211 فیصد بڑھی تو پاکستان میں 51 فیصد کم ہوئی۔ غرض یہ معلوم ہوا کہ پاکستان میں درآمدات میں کمی کو افغانستان کی ناجائز ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعہ پورا کیا گیا اور اس کیلئے پاکستان کی کرنسی کی ہنڈی اور بلیک مارکیٹ کو استعمال کرکے اربوں ڈالرز کی اسمگلنگ افغانستان کو کی گئی۔ اس دوہری اسمگلنگ سے پاکستان اور افغانستان کے اسمگلروں نے خوب مال بنایا اور پاکستان کو دیوالیہ پن کی کھائی میں دھکیل دیا۔

گویا سبق یہ ہے کہ ہم (افغان) تو ڈوبے ہیں صنم، تم (پاکستان) کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اب افغان اسمگلنگ اور جہادی پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔ لینی تو تزویراتی گہرائی تھی، ملی بھی تو تزویراتی کھائی، اب بھگتیں تو کیسے۔؟معروف کالم نگار وجاہت مسعود کے بقول آج کے پاکستان میں 80 فیصد دہشت گردی اور معیشت کی تباہی میں افغان پناہ گزین ملوث ہیں۔ افغانستان کو روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں سے آدھی رقم پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔ گندم، چینی اور کھاد جیسی اشیاء کی سمگلنگ کا قصہ الگ ہے۔ کابل پر طالبان قبضے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ افغان سرزمین پر کالعدم ٹی ٹی پی، داعش، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد عناصر موجود ہیں۔ طالبان اپنے مفاد میں ان لوگوں سے پنجہ آزمائی کی ہمت نہیں رکھتے بلکہ ان گروہوں کو ہمسایہ ممالک میں بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ طالبان کا طرز حکومت صرف بچیوں، عورتوں اور غریب عوام پر حکم چلانے تک محدود ہے، بہت ہوچکی، ہمیں اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے جس زمین پر قبضہ کیا ہے، اس کے معاملات خود سنبھالیں۔ پاکستان نے افغان طالبان کے ذوق پارسائی کی قیمت ادا کرنے کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا۔ ہمیں اپنے پچیس کروڑ عوام کی معاشی، سیاسی اور تمدنی ضروریات دیکھنا ہیں۔ بہرحال 27 ستمبر کو وفاقی ایپکس کمیٹی نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں موجود غیر ملکیوں کو حکم دیا کہ 31 اکتوبر تک ملک چھوڑ دیں، ورنہ انہیں زبردستی بے دخل کر دیا جائے گا۔ ایسے غیر قانونی تارکین وطن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔ قریب دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنا، حراستی مراکز میں رکھنا یا بے دخل کرنا ایک بڑے انتظامی بحران اور انسانی المیے کا معاملہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ نکران حکومت اس چیلنج سے کیسے عہدہ براہ ہوتی ہے۔ البتہ ایک حلقہ کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے اسٹریٹجیک اور اہم اقدامات کا مینڈیٹ موجودہ نگران حکومت کے پاس نہیں اور اسے صرف انتخابات کرانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …